کرخت، کھرے اور اپنی بات پر قائم رہنے والے۔ یہ تین اوصاف سردار عطا اللہ مینگل کی پوری شخصیت کا احاطہ کرتے ہیں۔
اخبار میں کوئی تصویر شائع ہو جائے، ٹیلی ویژن پر کوئی دکھائی دے جائے، ان دنوں یہ کوئی بڑی بات نہیں سمجھیں جاتی۔ آج کل بچوں کے لیے تو سمجھئے کہ اس کا ہونا یا نہ ہونا ہی برابر ہے لیکن ہمارا بچپن مختلف تھا۔ حرف مطبوعہ کی اہمیت تو اپنی جگہ تھی ہی لیکن اہم لوگ جن کی باتیں اور تصویریں اخبار میں جگہ پاتیں، ان کا مرتبہ تو سمجھ لیجئے کہ بلند تر ہوتا لیکن ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے اس ‘ عظیم’ تصور کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ سردار صاحب کی خبر اور تصویر ہوسکتا ہے کہ میں نے کہیں اور بھی دیکھی ہو لیکن شورش کاشمیری مرحوم کے چٹان میں جو جو تصویر میری نگاہ سے گزری، اس نے دائمی نقش کی حیثیت اختیار کر لی۔
بھٹو دور میں وزارت اعلیٰ سے برطرفی کے بعد وہ لاہور پہنچے تو آغا صاحب نے ان سے انٹرویو کا اہتمام کیا۔ یہ ان پر سکون زمانوں کی بات ہے جب شرفا گھروں سے نکل کر گلی میں بیٹھ جاتے تو کسی کو برا نہ لگتا، یہ انٹرویو بھی ایک گلی میں کسی زیر تعمیر عمارت کے ملبے کے ساتھ ہوا۔ پس منظر میں دکھائی دینے والے ملبے والی تصویر واضح اور بڑی تھی جس میں دکھنے والوں کے تاثرات کو نہ صرف دیکھا بلکہ سمجھا بھی جاسکتا تھا، تب سمجھ میں آیا کہ وہ لوگ جنھیں ہم خاص سمجھتے ہیں، وہ بھی ہمارے جیسے گوشت پوست کے انسان ہی نہیں، سادگی میں بھی ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں۔
وہ تصور جو بچپن میں دیکھی ہوئی ایک تصویر نے بنایا تھا، کئی دہائیوں کے بعد جب مجھے خود ان سے ملاقات کا موقع ملا تو تاثر میں جذبات کی شدت بھی شامل ہو گئی۔
یہ ان زمانوں کی بات ہے جن دنوں ہم لوگ محترمہ ناصرہ زبیری کی قیادت میں آج ٹی وی کی بنیادیں مضبوط کر رہے تھے، مجھے ان سے انٹرویو کا موقع ملا۔ بات ان کی سیاسی جدوجہد کی ابتدا سے شروع ہوئی اور جنرل مشرف کے عہد تک پہنچی، بیچ میں دو چار نازک مقامات بھی آئے، بھٹو صاحب کے زمانے میں جب بلوچستان میں ان کی حکومت توڑی گئی اور ان کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور ان کے صاحب زادے اسد مینگل غائب کر دیے گئے۔ نصف صدی کے بعد اس واقعے پر بات کرتے ہوئے مینگل صاحب کی آواز بھرا گئی اور کچھ دیر وہ خاموش رہے، یوں میں نے جانا کہ انسان سردار بھی ہو اور غیر لچک دار مؤقف بھی رکھتا ہو، اس کے باوجود اولاد کی محبت اسے کسی عام آدمی کی طرح کمزور بناسکتی ہے۔
سردار سے جن دنوں میں نے یہ انٹرویو کیا، سردار صاحب سیاسی اور اقتصادی ہر دو پہلوؤں سے پاکستان کے بارے میں ایک ایسا تجزیہ پیش کیا کرتے تھے جس سے بظاہر یہ نتیجہ برآمد ہوتا کہ یہ ملک چلنے والا نہیں۔
ان کا یہی تجزیہ تھا جس سے متاثر ہو کر میں نے ان سے انٹرویو کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ پہلی بار تھی جب میری سمجھ میں یہ آیا کہ اس ملک کے دیگر علاقوں کے سیاستدانوں کا انداز فکر اور اسلوب گفتگو جو بھی ہو، بلوچستان کے سیاست دان کا اندازفکر جداگانہ اور اس کا ڈکشن سب سے مختلف ہے۔
اس انٹرویو میں سردار صاحب نے پاکستان کے کے مسئلے کا نہایت ہوش مندی اور ہمدردی کے ساتھ تجزیہ کیا۔ ان کی گفتگو سن کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک ایسے شخص کی گفتگو ہے جسے اس ملک سے لینا دینا کچھ نہیں۔
پھر یہ کیا معمہ ہے کہ وہ ملک سے پوری محبت اور ہمدردی کے باوجود اس کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں؟ اس ملاقات میں پہلی بار سمجھ میں آیا کہ جب وہ مایوسی کا اظہار کرتے ہیں تو دراصل یہ کہتے ہیں کہ ہمارے طاقت ور لوگوں نے جو طور طریقے اختیار کر رکھے ہءں، وہ اگر اسی طرح برقرار رہے تو پھر بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امید کے دیے روشن ہیں تو پھر وہ خیالوں کی دنیا میں سانس لیتا ہے۔
مینگل صاحب سے ملاقات کے ذریعے جو دوسری بات سمجھ میں آئی یہ تھی کہ مینگل صاحب ہوں یا کوئی اور بلوچ، وہ پاکستان کے جغرافیے کے اندر ہی بلوچستان کا مستقبل محفوظ پاتے ہیں لیکن وہ سخت اور کرخت بات اس لیے کرتے ہیں تاکہ طاقت ور طبقات انھیں ٹیکن فار گرانٹڈ لینے کے بجائے ان کے ساتھ آبرو مندانہ طریقے سے بات کریں۔