ملتان سے ایک روح فرسا خبر آئی ہے کہ اس شہر کا ایک داستان گو بے روز گار ہوا۔ تفصیل اس سانحے کی بھی بیان ہوگی لیکن پہلے ملتان جیسے کسی شہر کے داستان گو کی اہمیت پر بات ہو جائے۔
ہماری زندگی میں بعض اوقات ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جن میں اٹھائی جانے والی ساری محنت اور مشقت کے باوجود حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ خلد آشیانی انتظار حسین ایسے واقعات پر کہا کرتے تھے:
‘ مکے گئے، مدینے گئے، ہر پھر کے ویسے ہی آ گئے،۔
تو سوال یہ ہے کہ سفر اگر وسیلہ ظفر ہے تو کیوں کوئی مسافر یا سیاح کسی سفر کا کشٹ بھی اٹھائے لیکن اس کی آنکھیں کسی منظر سے شاد ہوں اور نہ وہ کوئی ایسی کہانی ساتھ لے کر جائے جسے لوگ سنیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں یا مسکراہٹ روح میں تازگی بھر دے؟
بات ملتان کی ہو اور آپ اس شہر کی ہزاروں برس قدیم فصیل کے سائے تلے سے گزرتے ہوئے کسی تانگے، کسی چنکچی یا رکشہ والے کی زبان سے ایک مقام ‘خونی برج’ کا نام نہ سنیں یہ ممکن نہیں۔ آپ کے کان میں یہ نام پڑ جائے تو ممکن ہے ذرا سی دیر کے لیے آپ کے کان کھڑے ہوں پھر راستے کے بھیڑ بھڑکے میں نہ یہ سب آپ کے ذہن میں رہے اور نہ کوئی کیفیت آپ پر طاری ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی کو رضی الدین رضی کی رفاقت میسر ہو اور وہ چشم زدن میں ہزاروں برس کی تاریخ کے بام و در سے نہ گزر جائے۔ سبب اس کا یہ ہو گا کہ رضی الدین رضی ذرا سی دیر میں کچھ ایسے الفاظ میں تاریخ کا کوئی نہ کوئی واقعہ آپ کے گوش گزار کر چکے ہوں گے جیسے اُس شب اس مقام سے گزرتے ہوئے انھوں نے مجھے بتایا کہ یہی تو وہ جگہ ہے جہاں سے گزرتے ہوئے سکندر اعظم زخمی ہوا اور پھر یہ زخم اس فاتح عالم کی زندگی کا خاتمہ کر گیا۔
بات یہ ہے کہ شہر تہذیبوں کے امین ہوتے ہیں لیکن یہ تہذیبیں بولتی اپنے کہانی کاروں یا روایتی زبان میں داستان گووؤں کی زبان سے ہیں۔ ہمارے بھائی رضی الدین رضی گو صحافی ہیں لیکن اصل میں ملتان کا چہرہ اور اس کی زبان ہیں۔ آپ ملتان کو جان نہیں سکتے، اگر اس شخص کی راہ نمائی آپ کو میسر نہ ہو۔
اب نہ بادشاہوں کا زمانہ ہے اور نہ شہروں کو زبان بخشنے والے ایسے ہنرکاروں کی گزر بسر کے لیے شاہی خزانوں کے منھ کھلتے ہیں، اب تو اس مقصد کے لیے اہل ہنر کو اپنا ہنر استعمال میں لا کر مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ اب سے دو ایک روز پہلے تک اللہ نے ان کے اور ان کے اہل خانہ کے رزق کا اہتمام اے پی پی کے ذریعے کر رکھا تھا لیکن حادثہ یہ ہوا ہے کہ ہمارے اس محترم بھائی اور اے پی پی کے پینتیس چالیس احباب کو ایک فیصلے کے بہانے سے بے روزگار کر دیا گیا۔
کیا اب اس بات کو روئیں کہ راتوں رات دو تین درجن خاندانوں کو روز گار کر دیا گیا یا اس بات کا ملال کریں کہ رضی الدین رضی جیسے تہذیب شناس، ادیب، کہانی کار اور صحافی کو بے روزگار کر کے آپ نے دراصل ملتان کو خاموش کرنے کی تدبیر کی ہے؟
انتظار حسین حیات ہوتے تو وہ یقیناً کہتے کہ تہذیبوں کے قتل کے جرم پیچھے دراصل ایسی ہی وارداتیں ہوتی ہیں۔ اللہ ہمارے بھائی رضی اور سب بے روزگاروں کی دست گیری کرے، ہمارے شہروں کو بے زبان ہونے سے بچائے اور حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ اپنی قوت کو تباہی کے راستے پر ڈالنے کے بجائے حکمت کے راستے پر ڈال کر اللہ کے بندوں کے لیے آسودگی کا ذریعہ بنیں۔