گزشتہ دنوں کابینہ کے اجلاس میں ایک فیصلہ ہوا کہ حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کو تبدیل کر کے ایک نئے چیئرمین کے تقرر کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر کی گونج اور اس سے پیدا ہونے والی حیرت ابھی جاری تھی کہ سماجی رابطے کے جدید ذرائع اور پل پل کی خبروں سے آگاہ رکھنے والے وزیر اطلاعات نئے چیئرمین کے نام کا بھی اعلان کر دیا
افغانستان میں طالبان کے زور پکڑنے کے بعد پاکستانی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ سوال اہم بھی بہت ہے اور اس سلسلے میں خیالات کے گھوڑے بھی بہت دوڑائے جا رہے ہیں لیکن ایک گھوڑا ایسا ہے جس کا تیر نشانے پر بیٹھتا دکھائی دیتا ہے اور یہ تیر ہے، جنرل مرزا اسلم بیگ کا۔
وہ کرنل اشفاق حسین جیسے سکہ بند مصنف کو انٹرویو دینے پر آمادہ ہوئے اور یہ گفتگو کتاب کی شکل میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا اس کتاب کے وقت اشاعت میں بھی کوئی حکمت پوشیدہ ہے؟ جنرل صاحب نے قومی سیاسی موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے، اس پس منظر میں کتاب کے وقت اشاعت پر بھی بات ہوئی اور خیال ظاہر کیا گیا کہ اس کا تعلق اُس پرانی بحث سے ہو سکتا ہے جس کا تعلق ملک کے سیاسی نظام سے ہے یعنی کیا ملک میں موجودہ پارلیمانی کو ہی برقرار رہنا چاہئے یا کوئی ایسا تجربہ کرنا چاہئے جس کے لیے ہمارے محترم و معظم ڈاکٹرعطا الرحمن صاحب نے ایک عرصے سے مہم چلا رکھی ہے یعنی صدارتی نظام۔ ان سطورِ میں جب اس جانب اشارہ کیا گیا تو ہمارے کرنل صاحب پان کی گلوری کلے میں رکھ کر مسکرائے اور کہا کہ ممکن ہے کہ ایسا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن اس کتاب میں یہی بات نہیں لکھی گئی اور بھی بہت کچھ ہے۔
کتاب کی اشاعت کے بعد قومی اور عالمی منظر نامے پر بہت سے واقعات ہو گزرے ہیں، ان میں ایک واقعہ طالبان واپسی کا بھی ہے۔ اسی کے ساتھ جڑی ہوئی ایک بات جنرل صاحب نے یہ فرمائی ہے کہ اس ملک یعنی پاکستان کی سیاست کو قرار نہیں آسکتا جب تک یہاں سیاست کے مرکزی دھارے میں مذہبی جماعتوں کی با معنی کار فرمائی نہ ہو۔ یہ کرشمہ کیسے ہوگا؟ بیگ صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے ذریعے ہو گا اور ضمن میں ہمارے ہاں ان دنوں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ یہ بہت کچھ کیا ہو رہا ہے، اسے کسی ایک کالم میں سمیٹنا آسان نہیں لیکن ان ہی دنوں ایک حسن اتفاق ایسا ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہماری قومی زندگی کے ایک شعبے میں قرار آنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں اور وہ شعبہ بھی کچھ ایسا ویسا نہیں، اس کا تعلق معیشت سے ہے۔
گزشتہ دنوں کابینہ کے اجلاس میں ایک فیصلہ ہوا کہ حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کو تبدیل کر کے ایک نئے چیئرمین کے تقرر کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر کی گونج اور اس سے پیدا ہونے والی حیرت ابھی جاری تھی کہ سماجی رابطے کے جدید ذرائع اور پل پل کی خبروں سے آگاہ رکھنے والے وزیر اطلاعات نئے چیئرمین کے نام کا بھی اعلان کر دیا۔گزشتہ دنوں اس ملک میں ایک اور بورڈ یعنی کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے تقرر کے سلسلے میں کرکٹ پسندوں اور کھیل سے دلچسپی رکھنے والوں کے اعصاب کا اچھا خاصا امتحان ہوا تھا، اس تجربے کے بعد توقع کی جاسکتی تھی کہ انتظار کی زحمت جانے کتنے امید واروں اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں کے اعصاب چٹخائے لیکن خیریت گزری کہ ملک حساس ترین محکموں سے ایک محکمے کے سربراہ کے تقرر میں نہ صرف یہ کہ بے یقینی کے سائے نہیں لہرائے بلکہ حیرت انگیز طور پر ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا گیا جو اس منصب کے لیے موزوں ترین ہے۔ڈاکٹرمحمد اشفاق احمد کا نام ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے سامنے چند ماہ قبل اس وقت آیا جب انھوں نے کراچی چیمبر میں ملک کے چند بڑے تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی خبریں کچھ ایسی ہی تھیں جیسے تعریف و توصیف سے بے نیاز کوئی شخص سیدھی اور سچی بات کہہ دے۔ یہ ملاقات اور اس کی خبر آئی گئی ہو گئی لیکن لگتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا جس کی نشان دہی اقبال کر گئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھادل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بات اثر کر گئی اور ایک ایسے شخص کو ایف بی آر کو چیئرمین بنا دیا گیا جو اس منصب کے لیے موزوں ترین ہے۔
اشفاق اس منصب کے لیے موزوںں ترین کیسے ہیں؟ اس سوال کا جواب وہی لوگ دے سکتے ہیں جنھیں ان کی رفاقت حاصل رہی ہو یاکبھی ان کے ساتھ کام کیا ہو۔ ڈاکٹر محمد اشفاق احمد کا کیرئیر بنیادی طور پر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے سے وابستہ رہا ہے اور اپنے طویل کیرئیر کے دوران میں انھوں نے ملک بھر انتہائی اہم اور غیر معمولی ذمے داریاں انجام دی ہیں۔ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے انھیں اپنے بنیادی محکمے کے علاوہ بہت سے دیگر محکموں میں بھی کام کرنے کے مواقع ملے ہیں، یہ ایک ایسی خوبی ہے جو کسی بیوروکریٹ کے تجربے میں وسعت پیدا کر کے اسے زیادہ بڑی اور اہم ذمہ داریوں کی ادائی کے قابل بناتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جیل اور ریل کاتعلق ساتھ بڑا پائیدار ہوتا ہے لیکن ان دو تجربات کے ساتھ اگر ایک چھت کے نیچے کام کرنے کا تجربہ بھی شامل کر لیا جائے تو بڑی دلچسپ تکون وجود میں آتی ہے۔ ان سطور کے لکھنے والے کو ڈاکٹر اشفاق کو جاننے کا موقع اسی زمانے میں ملا۔ ایوان صدر کی تیسری منزل پر انتہائی بائیں جانب نصف وسط کی طرف ایک کمرہ ہوتا تھا،اشفاق اسی کمرے میں بیٹھا کرتے۔ دروازے کے بالکل ساتھ دائیں جانب ایک بڑی سی میز ان کے زیر استعمال تھی جس کے ایک طرف ایک چھوٹا سا پتھر پڑا رہتا تھا۔ کسی خوش ذوق نے اس پر پہلے نیلا رنگ کیا پھر سیاہ روشنائی سے اس پر ایک آیت رقم کر دی۔ جانے کیا،سبب ہے کہ اشفاق کے کے ذکر پر مجھے وہ میزاور اس پر رکھا پتھر یاد آ جاتا ہے۔
ایوان صدر میں ان کے تقرر کے زمانے میں بہت سے مشکل واقعات رونما ہوئے، ان میں ایک واقعہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے تقرر یا معزولی کا بھی تھا۔ یہ ایک تکلیف دہ واقعہ تھا جس نے بڑی بدمزگی پیدا کی، یہاں تک کہ تھانے کچہری تک کی نوبت بھی ا گئی۔ یہی سبب تھا جس کی وجہ سے کئی ناکامی گرامی افسروں کے صبر کا امتحان بھی ہوا۔ اشفاق ان چند افسروں میں سے ایک تھے، مشکل سے مشکل مرحلے پر جنھوں نے نہ صرف اپنے اوسان بحال رکھے بلکہ اپنے ہدف سے بھی ان کی نگاہ کبھی نہ ہٹنے دی۔تقرریوں اور معزولیوں کے معاملات کی معیشت کے پیچیدہ معاملات سے کچھ ایسی مماثلت تو نہیں ہوتی لیکن حکمت عملی، صبر، اوسان بحالی رکھنا اور دھیمی رفتار سے ہی سہی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہنے میں ہی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ ایک پرانے رفیق کار کی حیثیت سے مجھے ذرا بھی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر اشفاق کی نیک نیتی، حکمت عملی اور صبر کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کی عادت انھیں ضرور کامیابی کی منزل تک پہنچائے گی۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے وہ ترقی پسندانہ خیالات رکھتے ہیں اورعوامی مسائل اور کارسرکار کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ یہی وہ پس منظر ہے جو ایف بی آر کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کے تقر رکو موزوں بناتا ہے اور امید پیدا کرتا ہے کہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ اچھا کر گزریں گے۔