ایوب خان نے اقتدار پر قبضے کے بعد جن سیاست دانوں کو سیاست سے بے دخل کیا تھا، ان ہی سیاست دانوں میں سے کچھ خود ایوب خان کے زوال کا باعث بن گئے۔ اس طرح خود انھوں نے اپنے زوال کی راہ ہموار کی
‘بس اتنا کچھ ہی ہے؟’
پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں ایوب خان نے فائل کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور حیرت کے ساتھ سوال کیا۔
انھوں نے اپنے سیکریٹری کو حکم دیا تھا کہ وہ انھیں ان کے نافذ کر دہ قانون ایبڈو کی زد میں آ کر نااہل ہوجانے والے سیاست دانوں کی بداعمالیوں اور بد عنوانیوں کا خلاصہ بنا کر پیش کریں۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں:
‘ایبڈو کے ان 62 بلند و بالا پہاڑوں (نااہل کیے جانے والے نمایاں سیاست دان) کو کھود کر دیکھا تو ان میں سے بد اعمالیوں اور بد عنوانیوں کی چھوٹی چھوٹی ‘چوہیاں’ برآمد ہوئیں۔’
بقول قدرت اللہ شہاب، ایوب خان بدعنوانیوں کی ان ہی ‘چوہیوں’ کو دیکھ کر مایوس ہوئے اور کہا:
‘اگر یہ بات ہے تو یہ ساٹھ ستر جغادری سیاست داں دم دبا کر بھاگ کیوں گئے، مردانگی سے کام لے کر ایبڈو کا مقدمہ کیوں نہ لڑے؟’
انھیں جواب دیا گیا: ‘شاید مارشل لا سے ڈرتے ہوں یا شاید عزت بچانے کی خاطر اپنے آپ ریٹائر ہو کر بیٹھ رہے ہوں۔’
ایوب خان نے یہ جواب بے یقینی کی کیفیت میں سنا اور تردیدی انداز اختیار کرتے ہوئے فیصلہ کن لہجے میں کہا:
‘یہ بات نہیں۔’
اتنا کہہ کر انھوں نے تھوڑے تؤقف کے بعد سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے کہا:
‘تمہاری فائلیں ان کا جرم ثابت کریں یا نہ کریں لیکن ان کے ضمیر مجرم ہیں، یہ بات ان کو بخوبی معلوم ہے۔’
پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند ہی ماہ کے بعد مارشل لا کے ضابطے کے ذریعے ایک قانون نافذ کیا جسے الیکٹیو باڈیز ڈسکوالیفیکیشن آرڈر کا نام دیا گیا جو اپنے مخفف ایبڈو کے نام سے معروف ہوا۔
معروف محقق ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اپنی کتاب ‘دی ملٹری پولیٹیکس ان پاکستان: 1947-86’ میں لکھتے ہیں کہ یہ قانون دراصل ایک اور قانون پبلک آفسز ڈسکوآلیفیکیشن آرڈر (پوڈو) کی توسیع تھا جو سرکاری حکام اور مختلف درجوں کے افسروں کے احتساب کے لیے جاری کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عسکری کے مطابق اس قانون کا مقصد سیاست دانوں کی بدکرداری، رشوت ستانی، ہیرا پھیری، اقربا پروری اور سوچی سمجھی بدعنوانی کے خلاف کارروائی تھی۔
پاکستان کے ممتاز قانون دان اور مصنف حامد خان نے اپنی معروف کتاب ‘کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان’ میں اس فہرست میں کچھ اور جرائم کا اضافہ کیا ہے جن میں تخریب کاری، کسی خاص نظریے کا پرچار، سیاسی استحکام کو نقصان پہنچانے والی کوئی کارروائی، اختیارات کا دانستہ غلط استعمال یا دانستہ مالی بدعنوانی شامل ہیں۔
ایبڈو کس طرح کام کرتا تھا؟
اس قانون کے تحت دو طرح کے ٹربیونل وجود میں آئے۔ پہلی قسم کے ٹربیونل کے دائرۂ اختیار میں مرکزی حکومت سے متعلقہ افراد، سیاست دان اور محکمے آتے تھے جب کہ دوسری قسم کے ٹربیونل کا دائرہ اختیار صوبوں تک محدود تھا۔
وفاق تک دائرۂ اختیار رکھنے والے ٹربیونل کی قیادت سپریم کورٹ کے ایک جج کرتے تھے جب کہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ اور فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل ٹربیونل کے اس کے ارکان میں شامل تھے۔
صوبائی دائرۂ کار رکھنے والے ٹربیونل کی سربراہی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو سونپی گئی، صوبائی ٹربیونل بھی وفاقی ٹربیونل کی طرح تین ارکان پر مشتمل تھا اور اس میں ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل کیے گئے تھے۔
اس قانون میں کہا گیا تھا کہ اگر ان ٹربیونلز میں کسی ملزم پر الزامات ثابت ہوجائیں تو ملزم از خود یکم جنوری 1960 سے 31 دسمبر 1966 تک یعنی آئندہ چھ برس تک کے لیے کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے نااہل قرار پا جائے گا۔
دوسری صورت یہ تھی کہ کوئی شخص اگر ان الزامات کا سامنا نہ کرنا چاہے تو اسے اس کی آزادی ہوگی لیکن قانون کی نگاہ میں اسے مجرم ہی تصور کیا جائے گا لہٰذا اسے بھی آئندہ چھ برس تک کے لیے کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے نااہل تصور کیا جائے گا۔
پاکستان کے چند ممتاز سیاست دانوں نے ایبڈو کے قانون کے تحت الزامات کا سامنا کیا اور وہ ان جرائم کے مرتکب قرار پا کر نااہل کر دیے گئے جب کہ سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد نے مقدمات کا سامنا کرنے کے بجائے رضا کارانہ طور پر نااہلی قبول کر لی۔
اس قانون کی زد کتنے سیاست دانوں پر پڑی؟
اس سوال کا جواب چکرا دینے والا ہے۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی لکھتے ہیں:
‘اس قانون کی زد میں آ کر نااہل کیے جانے والے سیاست دانوں کی تعداد پانچ سے چھ ہزار تک رہی ہوگی۔’
ڈاکٹر رضوی نے سرکاری ذرائع سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں یہ جواب لکھ تو دیا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک سوال بھی اٹھا دیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق نااہلی کا سامنا کرنے والے ان سیاست دانوں کی یہ تعداد مبالغہ انگیز ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ اس قانون کی زد وزرا، نائب وزرا، پارلیمانی سیکریٹریوں اور اراکین اسمبلی پر پڑتی تھی۔
ملک کے دونوں صوبوں (یعنی ون یونٹ کے تحت بننے والے صوبہ مغربی پاکستان اور صوبہ مشرقی پاکستان) اور مرکزی حکومت سے وابستہ اراکین کی زیادہ سے زیادہ تعداد 1600 بنتی تھی۔
اس تجزیے کی روشنی میں وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس قانون کی زد میں آنے والے سیاست دانوں کی حتمی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
قانون دان حامد خان نے اپنے تجزیے میں کسی حتمی تعداد کا ذکر تو نہیں کیا لیکن ان کی رائے میں اس قانون کا دائرہ بہت وسیع تھا۔
اُن کی رائے میں اس قانون کا اطلاق وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ تمام منتخب اداروں، کمیٹیوں، میونسپل اداروں، ڈسٹرکٹ بورڈز اور کینٹونمنٹ بورڈز پر بھی ہوتا تھا۔
اس قانون کے بارے میں حامد خان کی تشریح کو تسلیم کر لیا جائے تو متاثرہ افراد کی وہ تعداد یقینی محسوس ہوتی ہے جس پر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے شک و شبہے کا اظہار کیا ہے۔
قدرت اللہ شہاب نے اس سلسلے میں جو تفصیلات فراہم کی ہیں، ان سے بھی حامد خان کی رائے کی تصدیق ہوتی ہے یعنی وزیر کی سطح کے عہدے داروں کے علاوہ بلدیاتی سطح کے لوگ بھی اس قانون کی زد میں آئے۔
البتہ متاثرین کی تعداد کے بارے میں ان کا بیان بھی پانچ سے چھ ہزار والی تعداد کی تصدیق نہیں کرتا۔
ان کے مطابق مشرقی اور مغربی پاکستان کے متاثرین کی تعداد دو ہزار تک رہی ہوگی۔
ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے اپنے والد کی سیاسی سوانح ‘محمد ایوب کھوڑو: اے لائف آف کریج ان پالیٹکس’ میں متاثرین کی تعداد سات ہزار بتائی ہے لیکن وہ اس کی تفصیل میں نہیں گئیں۔
ایبڈو کی زد میں کون کون آیا؟
ایوب خان نے جن دنوں اقتدار پر قبضہ کیا، پاکستان کو بنے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔
تحریک پاکستان میں حصہ لے کر ایک نئے ملک کے تصور کو حقیقت بنا دینے والی نسل اس وقت تک نہ صرف موجود تھی بلکہ میدان سیاست کی بہاریں بھی اسی کے دم سے تھیں۔
ان لوگوں میں سے صرف چند افراد ایسے تھے جنھوں نے اس قانون کے تحت لگائے جانے والے الزامات کا سامنا کیا اور نااہل کر دیے گئے۔
ان میں سب سے نمایاں تحریک پاکستان کے نمایاں رہنما اور سابق وزیر اعظم پاکستان حسین شہید سہروردی، سابق صوبہ بہاول پور کے وزیرِ اعلیٰ مخدوم زادہ حسن محمود اور سیسل ایڈورڈ گبن شامل تھے جو 1955 سے 1958 پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے تھے۔
ان چند افراد کے علاوہ سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس قانون کا سامنا کرنے کے بجائے رضاکارانہ طور پر نا اہلی قبول کر لی۔
‘شہاب نامہ’ میں قدرت اللہ شہاب نے ایسے 39 افراد کے نام شامل کیے ہیں جو قومی زندگی میں نہایت نمایاں مقام رکھتے تھے۔
ایسے افراد میں سابق وزیر اعظم پاکستان فیروز خان نون، سابق سفیر یوسف ہارون، بلوچستان سے قائد اعظم کے بااعتماد ترین ساتھی قاضی محمد عیسیٰ، سابق وزرائے اعلیٰ پنجاب نواب افتخار حسین ممدوٹ، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، سندھ کے وزرا پیرزادہ عبدالستار، قاضی فضل اللہ، پیر الٰہی بخش، سابق وزیر اعلیٰ سندھ محمد ایوب کھوڑو، بلوچستان کے نواب اکبر خان بگٹی، سیدہ عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین، سابق وزیر اعلیٰ سرحد خان عبدالقیوم خان، سابق گورنر مغربی پاکستان نواب مشتاق احمد گورمانی، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سابق رکن اور ملک کے دو مقبول اخبارات ‘پاکستان ٹائمز اور ‘امروز’ شائع کرنے والے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹیڈ کے سربراہ میاں افتخار الدین سمیت بہت سے دوسرے نمایاں اور مقبول سیاست داں شامل تھے۔
شہاب کے مطابق اس قانون کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے 98 ممتاز سیاست دانوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تھی جن میں سے 70 رضاکارانہ طور پر نا اہلی قبول کر کے سیاست سے تائب ہو گئے، 28 سیاست دانوں نے مقدمہ لڑ کر اپنی صفائی پیش کی، جن میں سے 22 مقدمہ ہار گئے اور صرف چھ بری ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے:
تیرہ فروری 1966: پاکستان کا پہلا ’یوم دفاع‘ جب سارے مجاہد بن گئے سوائے ایوب خان کے
معاہدہ تاشقند: بھٹو کا وہ بیان جس نے ایوب خان کا کھیل بگاڑ دیا
ایبڈو کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟
قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت میں اس کی بڑی دلچسپ وجہ بیان کی ہے۔
وہ ایوب خان کی ایک ڈائری کا ذکر کرتے ہیں جس میں انھوں نے سابق وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی ایک تقریر کے کچھ اقتباسات درج کر رکھے تھے جن میں انھوں نے حسین شہید سہروردی پر بعض سنگین الزامات عائد کیے تھے۔
اس ڈائری میں اُنھوں نے اردو اور انگریزی میں بعض دیگر سیاست دانوں کے کچھ واقعات بھی لکھ رکھے تھے۔
اس کے علاوہ ان کی خواہش پر ادارہ قومی تعمیر نو (نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو) کے سربراہ بریگیڈیئر ایف آر خان نے سیاست دانوں کے بعض سنے سنائے واقعات مرتب کر کے ایوب خان کو پیش کیے تھے جنھیں ایوب خان مختلف محافل میں چٹخارے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔
شہاب لکھتے ہیں:
‘کئی بار ان کی یہ حرکت بڑی طفلانہ اور مضحکہ خیز نظر آتی تھی لیکن ان کے ملاقاتیوں اور نجی محفلوں میں شریک ہونے والوں کی اکثریت جی حضوریوں پر مبنی تھی، اس لیے کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ اپنے ممدوح کو اس بھونڈے اور بچگانہ فعل کی وجہ سے خواہ مخواہ سرمایۂ تضحیک بننے سے روکتے۔’
شہاب کے مطابق ایوب خان اس قسم کے واقعات کی بنیاد پر سمجھتے تھے کہ وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے زمانے سے لے کر ان کے زمانے تک کسی بھی دور میں پارلیمانی جمہوریت کا نظام کامیاب نہیں ہو سکا۔
ان کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ سیاست دانوں کی نااہلی اور بدعنوانی تھی، لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ سیاست دانوں کی اس پوری نسل کو معاشرے سے کانٹے کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ اس قانون کو مؤثر بہ ماضی رکھا گیا یعنی اس قانون کی رو سے قیام پاکستان سے لے کر اُس عہد تک کے تمام معاملات کو گرفت میں لایا جاسکتا تھا۔ پوڈو اور ایبڈو کے بعد انھوں نے بنیادی جمیوریت کا نظام بھی اسی مقصد کے لیے متعارف کروایا تھا۔
ایک مصنف فرح ضیا نے ایبڈو کی ایک اور سیاسی ضرورت کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔
اخبار ‘دی نیوز’ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انھوں نے لکھا ہے کہ ایبڈو کے نفاذ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان سیاست دانوں کو میدان سیاست سے نکال باہر کیا جائے جو ون یونٹ کے قیام کے ذریعے ملک کے اکثریتی حصوں کے حقوق کی بحالی کے علاوہ سیکیولر قوانین کے نفاذ کی حمایت کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے زمانے سے تعلق رکھنے والی سیاست دانوں کی نسل کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے جہاں ایبڈو جیسے قوانین متعارف کروائے گئے اور بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا گیا، وہیں سیاست دانوں کی نااہلی کے لیے چھ سال کے دورانیے کا تعین بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا۔
حامد خان لکھتے ہیں کہ اس قانون کی زد میں آنے والے بیشتر سیاست دان اس وقت 60 اور 70 کے پیٹے میں تھے۔
اس پس منظر میں ایوب خان اور ان کے منصوبہ ساز توقع کرتے تھے کہ چھ سال کے اس عرصے میں نااہل کیے جانے والے سیاست داں اپنی عمریں پوری کر کے اس جہان سے کوچ کر جائیں گے یا اتنے ضعیف ہو جائیں گے کہ سیاست میں حصہ لینا ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔
اُس زمانے کے حالات کے جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔
ایبڈو کی ضرورت کے بارے میں بعض مصنفین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے یہ قانون اس لیے بھی بنایا تاکہ اپنے مخالفین سے انتقام لیا جا سکے۔
حامد خان نے اس کی ایک دلچسپ مثال بیان کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان جن دنوں فوج کے سربراہ تھے، ان دنوں ایوب کھوڑو وزیر دفاع ہوا کرتے تھے۔
ایوب خان کبھی کسی کام کے لیے انھیں ملنے کے لیے آئے تو انھیں ان کے دفتر میں انتظار کرنا پڑا۔
یہ بات ایوب خان پر گراں گزری، چنانچہ ایوب خان نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایبڈو کے تحت ان کے خلاف اس لیے مقدمہ قائم کروا دیا تاکہ ان کے دماغ سے گرمی نکل جائے۔
سیاست دانوں کی نااہلی کا باعث بننے والے جرائم
اختلاف کی بنیاد پر سیاست دانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد شروع ہو گیا تھا جس کی کچھ مثالیں اس عہد کے ایک ممتاز سیاست دان اور دانش ور پیر علی محمد راشدی نے اپنی کتاب ‘روداد چمن’ میں درج کی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب کراچی کو سندھ سے لے کر وفاق کا حصہ بنانے کے معاملے سمیت بعض دیگر اختلافات پیدا ہوئے تو وزیر اعلیٰ محمد ایوب کھوڑو کی برطرفی کے بعد ایک ٹریبیونل بنا کر بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات شروع کردی گئی۔
یہ پہلا موقع تھا جب ایک سیاست دان کے خلاف بیوروکریسی کو بالادستی دی گئی اور اس کی گواہیوں پر انھیں بدعنوان قرار دیا گیا۔
تحقیقاتی ٹریبیونل نے ان کے خلاف بیشتر بڑے بڑے الزامات خارج کر دیے اور انتظامی نوعیت کے نہایت معمولی الزامات پر انھیں مجرم قرار دے کر دو سال کے لیے سیاست کے لیے نااہل قرار دے دیا۔
انھوں نے ہائی کورٹ میں اپیل کی تو ان الزامات کو بھی بے بنیاد قرار دے کر انھیں بری کر دیا گیا۔
اس دوران میں بانیِ پاکستان کی وفات ہو چکی تھی۔ ان کی وفات کے بعد 1949 پبلک اینڈ ری پریزنٹیٹو آفس ڈسکوآلیفیکیشن ایکٹ یعنی پروڈا نافذ کر دیا گیا۔
اس قانون کے تحت کھوڑو کے خلاف دوبارہ مقدمات درج کر دیے گئے۔ ان میں سے ایک مقدمہ وزیر اعلیٰ کے گھر سے ایک موٹر سائیکل کی برآمدگی کا تھا جس کا ہندو مالک قیام پاکستان کے بعد انڈیا منتقل ہو گیا تھا۔
ان پر دوسرا الزام یہ تھا کہ انھوں ایک سرکاری پریس کی ٹریڈل مشین جو متعلقہ ادارے نے بے کار قرار دے کر نیلام کرنے کا فیصلہ کیا تھا، سستے داموں اپنی ذاتی پریس کو دلوائی تھی۔
پیر علی محمد راشدی نے ایوب کھوڑو کے خلاف جس قسم کے الزامات کا ذکر کیا ہے، ایبڈو کے تحت بھی سیاست دانوں کو اسی قسم کے الزامات کے تحت سزا سنائی گئی۔
قدرت اللہ شہاب نے ان الزامات کی ایک فہرست ‘شہاب نامہ’ میں شامل کی ہے جس کے مطابق کسی پر سرکاری ٹیلی فون اور کار کے بے جا استعمال کا الزام تھا، کسی سیاست دان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کام ترجیحی طور پر کروائے یا تقرریوں اور تبادلوں کے سلسلے میں دخل اندازی کی۔
اس کے علاوہ بعض سیاست دانوں پر سرکاری دوروں کے سیاسی استعمال کا الزام تھا یا یہ الزام تھا کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران کوئی ٹیکس اس لیے نہیں لگایا کہ اس سے حکومت کی مقبولیت میں کمی ہوگی۔
الزامات کی یہی فہرست تھی جس کے مطالعے سے ایوب خان بدمزہ ہوئے تھے۔
ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے اپنے والد کی سوانح میں ان پر لگائے جانے والے الزامات کا ذکر کیا ہے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے ایک پرانی کار حکومت کے طے شدہ نرخوں سے زائد پر فروخت کی تھی۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے والد کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد مقدمہ تھا کیونکہ جب وہ کار فروخت کی گئی تھی، اس وقت تک حکومت نے پرانی گاڑیوں کی فروخت کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا تھا، یہ قانون 1958 میں مارشل لا کے نفاذ بنایا گیا تھا جب کہ کار کی فروخت کا واقعہ اس سے بہت پہلے کا تھا۔
قدرت اللہ شہاب دعویٰ کرتے ہیں کہ اس فہرست کے مطالعے کے بعد ایوب خان نے سیاست دانوں کو اگرچہ ضمیر کا مجرم تو قرار دیا لیکن بعد میں ان کے روّیے میں تبدیلی آ گئی اور انھوں نے سیاست دانوں کی تضحیک اور گالی گلوچ میں کمی کر دی۔
ایبڈو کے سیاسی اثرات
پاکستانی تاریخ کی مختلف کتب میں ایبڈو کے نفاذ اور اس کے اثرات کا تذکرہ کم ملتا ہے یا نہیں ملتا۔
کسی تحقیقی سرگرمی کے ذریعے اگر اس قانون کے متاثرین کی مکمل فہرست سامنے آسکے تو یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ اس قانون کے اثرات کی نوعیت کیا رہی اور ملک کے کس حصے میں کس قسم کے جذبات پیدا ہوئے۔
تاہم مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی کتاب ‘ پاکستان کیوں ٹوٹا’ میں دعویٰ کیا ہے کہ قومی معاملات میں سیاست دانوں کی بے دخلی سے مشرقی پاکستان کے عوام میں سیاسی محرومی بڑھ گئی، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ایوب خان کے وزیر اور ممتاز قانون داں ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب ‘تھرو دی کرائسز’ میں 1969 کی تند و تیز احتجاجی تحریک پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس تحریک کی شدت میں اضافے میں ان سیاست دانوں کا کردار بھی بہت اہم تھا جنھیں ایبڈو کے قانون کے تحت سیاست سے بے دخل کیا گیا تھا کیونکہ جب یہ تحریک شروع ہوئی، ان میں سے کئی پابندی کی مدت ختم کرنے کے بعد سیاست میں ایک بار پھر سرگرم ہو چکے تھے۔
اس طرح ایوب خان نے اقتدار پر قبضے کے بعد جن سیاست دانوں کو سیاست سے بے دخل کیا تھا، ان ہی سیاست دانوں میں سے کچھ خود ایوب خان کے زوال کا باعث بن گئے۔
یہ تحقیقی مضمون https://www.bbc.com/ پر شائع ہو چکا ہے