کیا پاکستان تیزی سے غیر محفوظ ملک بنتا جارہا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟اس سوال کا جواب دو ذرائع سے سامنے آیا ہے، پہلے ذریعے کا جواب واقعات سے کشید کیا گیا ہے، اس لیے ذرا طویل ہے لہٰذا دوسرا ذریعہ پہلے زیر بحث لانا زیادہ آسان اور سہل ہے۔ مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں فریقین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے پاکستان میں خوابیدہ افغان سلیپرز سیلز دوبارہ فعال ہو سکتے ہیں۔ اس خدشے کے اظہار کے ساتھ انھوں نے یہ کہنا بھی مناسب سمجھا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
فوج کے ترجمان کے اس بیان کے بعد کوئی شبہ نہیں رہتا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت دوبارہ سر اٹھا چکا ہے۔
اس سوال کا دوسرا جواب واقعات فراہم کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے اس سلسلے کا تازہ آغاز لاہور دھماکے سے ہوا ہے۔ اس کے بعد سابق قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں مختلف مقامات پر خونریزی کے واقعات ہوئے ہیں جن میں مسلح افواج کو افسروں اور جوانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو اپنی جگہ حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے تاہم داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئروں پر حملہ اور اس کے بعد افغان سفیر کی صاحبزادی کے اغوا کے واقعات نے تشویش کا درجہ مزید بلند کر دیا ہے۔
یہ تشویش ناک واقعات صرف ایک ہی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کچھ قوتیں ملک کے استحکام کو تہہ و بالا کرنے کے لیے نہایت منظم طریقے سے متحرک ہو چکی ہیں۔ اس صورت حال کا دوسرا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً مہینے بھر سے جاری واقعات کے باوجود انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں سرکاری سطح پر جتنی فعالیت سامنے آنی چاہئے تھی، بدقسمتی سے اس کا عشر عشیر بھی سامنے نہیں آ سکا، اگر انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں انتظامات مؤثر ہوتے تو دہشت گرد یوں آزادی کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں دندناتے نہ پھرتے۔
آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران جو افسوس ناک واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں وفاقی وزیر امور کشمیر کی طرف سے مبینہ فائرنگ کے واقعات کو بھی اس صورت حال سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایسا کوئی الزام لگانا تو زیادتی ہوگی کہ آزاد کشمیر میں فائرنگ کرنے والے کسی سازش کا حصہ ہیں لیکن جب کسی خاص صورت حال میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو حالات کا ریلا اس طرح کے واقعات کو خود بخود ایک خاص تناظر میں دھکیل دیتا ہے۔ اس لیے دانش مند سیاسی قوتیں ایسے نازک حالات میں احتیاط کا دامن تھام لیتی ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بار ایسا نہیں ہو رہا جس کے نتائج نا خوش گوار ہو سکتے ہیں، اس پس منظر میں فوج کے ترجمان کے بیان کو ایک انتباہ سمجھنا چاہئے اور سلسلے حکومت کو دوسروں سے بڑھ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، دوسری صورت میں ہمارے ملک کے بدامنی کا شکار ہو جانے کے خدشات کو تقویت ملے گی بلکہ ہمارے خارجہ تعلقات، اقتصادی راہداری کے تحت زیر تعمیر منصوبے نیز بیرونی سرمایہ کاری پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے۔ سیاسی استحکام سے محرومی اس پر مستزاد ہو گی۔