واقعات کی رفتار کچھ ایسی تیز ہوئی ہے کہ اسد علی طور پیچھے رہ گئے ہیں اور اب حامد میر زیر بحث ہیں۔ اسد علی طور کے ساتھ یک جہتی کے مظاہرے کے دوران میں حامد میر نے خفگی کے عالم میں جو گفتگو کی، وہ معمولی نہ تھی، اپنے ایک ساتھی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر وہ بہت آزردہ تھے، اس آزردگی میں انھوں نے طاقت ور طبقات کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ آپ ہمیں ہمارے گھروں میں گھس کر ماریں گے تو ہماری یہ طاقت تو نہیں کہ اسی انداز میں جواب دے سکیں لیکن ہم آپ کی ذاتی خبریں ضرور منظر عام پر لائیں گے۔
حامد میر کے انداز گفتگو پر بحث ہو سکتی ہے کہ انھیں یہ لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیے تھا یا نہیں لیکن یہ امر قابل فہم ہے کہ صحافیوں کے ساتھ مسلسل پیش آنے والے تشدد کے واقعات کے پس منظر میں ٹھنڈے سے ٹھنڈا مزاج رکھنے والا شخص بھی جذبات کی آندھی کا شکار ہو سکتا ہے۔
اب تازہ واقعہ یہ ہوا ہے کہ انھیں آف ایئر کر دیا گیا ہے۔ حامد میر پر عاید کی جانے والی یہ پابندی کئی اعتبار سے توجہ طلب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے سخت غصے اور خفگی کے عالم میں جس طبقے کو نشانہ بنایا ہے، اس کے نزدیک حامد میر کا طرز عمل قابل قبول نہیں تھا لہٰذا دباؤ کے زیر اثر انھیں آف ائیر کرا دیا گیا، رائے عامہ کے نزدیک ان پر عاید ہونے والی پابندی کا اس کے سوا کوئی اور مطلب ہی نہیں۔
کیا اس پابندی کے ذریعے وہ مقاصد کیے جا سکیں گے جو پیش نظر رہے ہوں گے؟ حکمرانوں یا طاقت ور طبقات کے ذریعے جب اس قسم کی پابندیاں عاید کی جاتی ہیں تو عوامی سطح پر اس کا پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ حامد میر کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی آزمائشیں حامد میر کے لیے نئی نہیں ہیں۔ انھیں ماضی میں بھی ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایسے مواقع پر انھوں نے ثابت قدمی سے مزاحمت کی اور آزادیِ صحافت کا علم بلند کئے رکھا جس سے انھیں عوامی مقبولیت بھی ملی اور حکمرانوں کو پیچھے ہٹتے ہوئے پابندیاں بھی اٹھانی پڑیں۔ آئندہ کیا ہوگا، پیشین گوئی آسان نہیں لیکن امکان یہی ہے کہ ماضی کی روایت ہی دہرائی جائے گی اور پابندی اٹھانی پڑے گی کیوں کہ حامد ٹیلی ویژن اسکرین پر ہوں یا نہ ہوں،ان کی آواز بڑے پیمانے پر سنی جائے گی۔ انھیں آف ائیر کرانے کے خواہش مند کچھ حاصل نہ کر پائیں گے۔
حامد میر کے خلاف کارروائی اتنی ہی ناگزیر تھی تو بہتر یہی ہوتا کہ ان کے خلاف مقدمہ قائم کر کے ان سے کہا جاتا کہ الزام ثابت کیے جائیں لیکن یہ نہیں ہوا ہے جس سے عمومی تاثر یہی پیدا ہوا ہے کہ معاملات اس سے کہیں بڑے ہیں جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ لوگ ان واقعات کو کسی بڑی تبدیلی کے نکتہ آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔