پی ڈی ایم اب کس راہ پر چل رہی ہے؟ حکومت مخالف اتحاد کے تازہ اجلاس کے بعد یہ سوال ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ سینیٹ میں چیئرمین الیکشن کے بعد شاہد خاقان عباسی کی طرف سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو جو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، اس کے بعد سے فریقین کے درمیان معاملات بظاہر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے تھے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم کی قیادت کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا، اس سے یہی لگتا تھا کہ یہ اتحاد قومی سیاست کا کم عمر ترین اتحاد ثابت ہوا اور بن کھلے مرجھا کر تاریخ کا رزق بن گیا لیکن قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی رہائی کے بعد صورت حال میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی اگرچہ اپنے سخت گیر مؤقف کا اظہار زور و شور کے ساتھ کر رہے ہیں لیکن برف پگھلتی ہوئی بھی دکھائی دے رہی ہے جس کا ثبوت پیپلز پارٹی کے راہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ سید نیر بخاری کی تازہ بات چیت سے ملا ہے جس میں انھوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے ساتھ تعاون کا عندیہ دیا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی یہ شرط عاید کی ہے ہر اگر وہ پی ڈی ایم کے بجائے قائد حزب اختلاف کے فورم سے یہ مسئلہ اٹھائیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان تلخی جس سطح پر پہنچ چکی تھی، یہ بیان بدلے ہوئے موسم کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ شہباز شریف کی کامیابی ہے۔ آنے والے دنوں میں توقع کی جاسکتی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی طرف سے بھی کسی قدر لچک کا مظاہرہ ہوسکتا ہے۔ بجٹ سیشن کے موقع پر حزب اختلاف کی ان بڑی جماعتوں کا باہمی تعاون انھیں فیس سیونگ کا موقع فراہم کرے گا۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے لچک کا ایک سبب اور بھی ہے۔ ماضی قریب اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے کے درمیان جس قربت کے آثار دکھائی دیتے تھے، اب وہ صورت حال بدل چکی ہے اور یہ خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ آصف علی زرداری پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ بغرض علاج بیرون ملک چلے جائیں جس سے انھوں نے انکار کیا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں یہ ایک بڑی اور غیر معمولی تبدیلی ہے جس پر آئندہ بار ہوگی۔