ماہم نور ترکی جواں سال آرٹسٹ ہیں جو ترک تاریخ سے کردار منتخب کر کے خاکے بناتی ہیں۔ ان کے کام کو سمجھنے کا مرکزی نکتہ حب الوطنی ہے۔ ترک آرٹ کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ذرائعے خالص مقامی کردار منتخب کیے جاتے ہیں اور ان کے کارناموں کو کہانی کا موضوع بنایا جاتا ہے۔

ماہم نور اس قسم کی کئی کہانیاں تخلیق کر چکی ہیں جنھیں عوام اور خاص طور پر نئی نسل میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ ماہم کی کہانیوں کی کئی سیریز ملک کے بڑے قومی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں، ان کے کام کے کئی مجموعے بھی کتابی شکل میں اشاعت پزیر ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں فلسطین میں اسرائیل کی ظالمانہ جارحیت کے دنوں میں جہاں دنیا بھر کے اہل ضمیر نے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی اور مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا، اس موقع پر ماہم نور نے بھی ایک فلسطینی بچی کا اسکیچ بنایا ہے جس نے بیت المقدس کو اپنی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔
ماہم نور کے اس اسکیچ میں جبر کے مقابلے میں مزاحمت، اپنی سرزمین اور مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے جہد مسلسل کا عزم جارحانہ مظالم کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماہم نور کا یہ اسکیچ اتنا بھرپور اور تاثر کے اعتبار سے اتنا مکمل ہے کہ اسے مزاحمتی آرٹ کے کسی بھی مقابلے میں نہایت اعتماد کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ آرٹ کا یہ شان دار نمونہ تیار کرنے پر ماہم نور مبارک باد کی مستحق ہیں۔
ماہم نور کے تعارف کے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ ترکی میں اردو کے سب سے بڑے علم بردار اور پاکستان کے عظیم دوست پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کی صاحب زادی اور پاکستان میں اردو ادب کی عظیم شخصیات میں سے ایک ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی نواسی ہیں۔