’وہ خبر ہم پر یوں گری جیسے بم کا کوئی گولہ گرتا ہے۔ رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی قیمتوں کو پر لگ گئے، وہ کیلا جو 80 روپے درجن بڑی آسانی کے ساتھ مل جاتا تھا، دو سو روپے پر جا پہنچا اور لیموں کے نرخ جو چند روز پہلے تک سو روپے فی کلو گرام تھے، بڑھ کر چار سو روپے ہو چکے تھے اور کچھ ایسی ہی صورتحال دیگر اشیائے صرف کی بھی تھی۔‘
’بہت کوشش کے باوجود نہ قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجہ سمجھ میں آئی اور نہ بڑھی ہوئی قیمتوں میں کمی کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکی۔ اب ہمارے سامنے دو راستے تھے، شکست تسلیم کر کے آرام سے گھر بیٹھ جائیں یا جان ہتھیلی پر رکھ میدان میں نکل آئیں۔ اس کے بعد جو نتیجہ بھی نکلے، اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔‘
ایک سال قبل جنوبی پنجاب کے ایک بڑے شہر میں ڈپٹی کمشنر کے منصب پر فائز رہنے والے افسر نے اس بیان کے بعد جو کہانی بیان کی، وہ کسی جاسوسی کہانی کی طرح دلچسپ اور پیچیدہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجہ جاننے کے لیے جب تین چار روز کی مسلسل کوشش کے بعد ہر تدبیر ناکام ہو گئی تو ایک صبح ساڑھے چار بجے انھوں نے اپنے عملے کے ایک با اعتماد اہلکار کو ساتھ لیا اور مرکزی سبزی منڈی جا پہنچے اور خاموشی کے ساتھ کاروباری طور طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق بظاہر سارا عمل شفاف اور کاروباری اصولوں کے مطابق تھا، صبح کاذب دن کی چمکدار روشنی میں بدل چکی تھی لیکن مسئلے کا کوئی سرا ابھی تک ہاتھ میں نہیں آ سکا تھا۔ انھیں ایسا لگتا تھا کہ ان کی یہ کوشش بھی ناکام جائے گی کہ عین مایوسی کی اس کیفیت میں روشنی کی ایک کرن چمکی۔
یہ بھی پڑھیے:
انھیں ایک شخص ملا جو کوئی مزدور ہی لگتا تھا اور بظاہر اتفاقاً اُن سے ٹکرایا۔ بہ بتاتے ہیں کہ ٹکراتے وقت وہ شخص کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا، وہ مقامی سرائیکی لہجے میں کہہ رہا تھا: ’منافع خوری دا راز سمجھنڑاں اے تے پہلے کولڈ سٹوریج دا مالک لبھو سائیں‘ یعنی ’منافع خوری کا راز سمجھنا ہے تو کولڈ سٹوریج کا مالک تلاش کرو بابو جی‘۔
اس شخص کا ’یہ جملہ میرے کانوں میں پڑا تو جیسے گھپ اندھیرے میں امید کا دیا جل اٹھا اور میں ایک نئی امید اور عزم کے ساتھ منڈی سے لوٹا۔‘
سابق ڈی سی او نے کسی قدر جوش کے ساتھ یہ بات کہی اور بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے اپنے ایک انتہائی قابل اعتماد معاون کے ذمے لگایا کہ وہ شہر کے کولڈ سٹوریج کی تفصیلات اور ان کے مالکوں کے کوائف جمع کرے۔
تین چار روز کی محنت کے بعد پتہ یہ چلا کہ شہر میں 16 کولڈ سٹوریج تھے۔ یہ تمام کے تمام سٹوریج مقامی ایم این اے کے اپنے تھے یا اس کے رشتے داروں کے۔ خود مارکیٹ کمیٹی کا چیئرمین بھی ان میں سے چند ایک کا مالک تھا۔
وہ بتاتے ہیں ’یوں اپنے کیرئیر میں پہلی بار منڈی کی ایک اور جہت میرے سامنے آئی اور میں نے اگلا قدم ان سٹوریجز پر چھاپے کی صورت میں اٹھایا، اس کے بعد ہم لوگوں پر کیا بیتی، یہ ایک الگ داستان ہے لیکن کامیابی نے ہمارے قدم چومے۔‘
سابق ڈی سی او دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کارروائی کے بعد لیموں کی قیمت کم ہو کر نصف رہ گئی اور کیلا ساٹھ روپے فی درجن پر بکنے لگا اور اس کے بعد آنے والے دنوں میں قیمتیں بڑی حد تک اعتدال پر رہیں۔
لیکن سوال تو یہ ہے کہ ظلم کے آسمان کو چھوتی ہوئی منافع خوری کا میکنزم کیا ہے؟
ضلعی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار بتاتے ہیں کہ اس کھیل کی ابتدا عام طور پر علی الصبح مارکیٹ کمیٹیوں سے ہوتی ہے۔
’ٹرکوں، ٹرالیوں اور بعض اوقات ریڑھوں پر لدی اشیا صرف سبزیاں اور پھل رات بھر منڈی میں آڑھیتیوں کے ٹھکانوں پر پہنچتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد منھ اندھیرے مارکیٹ کمیٹیوں کا کردار شروع ہوتا ہے، یہ لوگ نرخوں کا تعین کرتے ہیں۔ قیمت خرید پر دس فیصد منافع تو جائز اور ضروری ہے لیکن مارکیٹ کمیٹیوں کے عہدےدار کی معیشت کے اصول مختلف ہیں۔ ان کے ہاں منافع کی شرح عام طور پر تیس فیصد سے شروع ہو کر پچاس فیصد تک اور بعض مخصوص مواقعوں پر اس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے اور بازار میں مہنگائی کا نکتہ آغاز یہی ہے۔‘
مارکیٹ کمیٹیوں کے نظام اور اس کی تاریخ کو سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ انتہاؤں کو چھوتی ہوئی مہنگائی کے موجودہ بحران کو سمجھنے کے لیے اس نظام کی تاریخ اور ماضی میں متعلقہ قوانین میں تبدیلیوں سے آگاہی ناگزیر ہے۔
سنہ 2001 تک مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام اور بازار میں قیمتیوں کے تعین پر نگرانی کی ذمہ داری براہ راست ضلعی انتظامیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن جنرل مشرف نے جب اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے نام پر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تو ضلعی انتظامیہ کے اختیارات میں بڑی حد تک کمی واقع ہو گئی کیوںکہ ضلعی انتظامیہ کو حاصل اختیارات ان سے واپس لے کر عدلیہ کے سپرد کر دیے گئے۔ اس طرح پہلے مارکیٹ کمیٹیوں کی نگرانی کے اختیارات جو ضلعی انتظامیہ کے پاس تھے، سول جج کو منتقل ہو گئے اور یہیں سے بحران کا آغاز ہوا۔
بحران اس لیے پیدا ہوا کہ مہنگائی اور منافع خوری پر قابو پانے کے اختیارات تو عدلیہ کو منتقل ہو گئے لیکن یہ ادارہ انتظامیہ کی طرح بازاروں کی نگرانی کس طرح کرے گا؟ اس سلسلے میں کوئی نیا نظام (میکنزم) تیار نہیں کیا گیا جبکہ ضلعی انتظامیہ کے اختیارات میں کمی کے ساتھ ہی پرانے نظام کا خاتمہ ہو گیا۔
نظام کے اس خلا کا نتیجہ یہ نکلا کہ سنہ 2001 سے 2004 تک منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے سدباب کے سلسلے میں کوئی ایک مقدمہ بھی درج نہ کیا جا سکا لہٰذا کسی عدالتی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان چار برسوں کے دوران یعنی جنرل مشرف کے زمانے میں ہی یہ خلا اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ خود ان ہی کے زیر سایہ کام کرنے والی مسلم لیگ ق کی حکومت نے کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر سی پی سی) میں ترمیم کر کے اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کے اختیارات کسی حد تک بحال کر دیے لیکن ان کے ساتھ ہی بعض دیگر محکموں کو بھی اس کام کا ذمہ دار بنا دیا گیا جن میں محمکہ زراعت کا ایک شعبہ، محکمہ لائیو سٹاک، محکمہ ماحولیات، محکمہ خوارک اور بلدیاتی اداروں کے علاوہ خود مارکیٹ کمیٹیاں بھی شامل تھیں۔ اب یہ تمام ادارے اپنے اپنے انداز اور مزاج کے مطابق کام کرتے ہیں۔
تین چار برس کے عرصے میں بازار میں متحرک فورسز کے بے قابو ہو جانے کے تلخ تجربے کے بعد قانون میں تبدیلی ضرور کی گئی جس کے نتیجے میں ایک لولا لنگڑا نظام بھی رفتہ رفتہ وجود میں آ گیا لیکن اس عرصے کے درمیان میں نظام کا جو خلا پیدا ہو گیا تھا، اس کہ وجہ سے مارکیٹ کی نگرانی کرنے والے نئے نظام کی رٹ قائم نہ ہو سکی۔ موجودہ نظام کی اس کمزوری میں کئی دیگر عوامل بھی اہمیت رکھتے ہیں، پرانے نظام کا موجودہ نظام سے موازنہ کر کے انھیں سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ فرق سابق وفاقی سیکرٹری (اور اب ملک کے ایک ممتاز اردو روزنامے کے کالم نگار) راؤ منظر حیات نے بتایا۔
وہ کہتے ہیں کہ پرانے نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر ان معاملات میں کتنے مؤثر تھے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اگر وہ مہنگائی کی اطلاع ملنے پر بازار میں نکل پڑتے تو اس کے نتیجے میں قیمتیں عام طور پر پچیس سے تیس فیصد کم ہو جاتیں۔
’اس کا سبب یہ تھا کہ ان افسران کو فوری طور پر جرمانہ کرنے یا جرم کی نوعیت کے پیش نظر گراں گروشوں کو قید کر دینے کا اختیار حاصل تھا۔ یہ ان ہی اختیارات کا نتیجہ تھا کہ سبزی فروش، کریانہ مرچنٹ، قصاب یا ضروریات زندگی فروخت کرنے والا کوئی بھی دکان دار حدود سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔‘
ضلعی انتظامیہ کو حاصل اختیارات کے سلسلے میں راؤ منظر حیات کو اپنے کیرئیر کا ایک دلچسپ واقعہ بھی یاد ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اطلاع ملی کہ شہر میں جعلی مشروبات کا ایک کارخانہ قائم ہو چکا ہے جسے چند بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود کارخانے کے خلاف کارروائی بلا تاخیر کی گئی جس کے فوری اور مثبت نتائج برآمد ہوئے۔‘
راؤ منظر حیات کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ تو ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ نظام نقائص سے مکمل طور پر پاک تھا جس سے بازاروں کا نظم و ضبط برقرار رہتا تھا لیکن یہ دعویٰ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک فعال نظام تھا کیوںکہ اس نظام کے تحت پولیس کا ادارہ ضلعی انتظامیہ کو جوابدہ تھا اور ضلعی انتظامیہ پولیس کی مدد سے بازاروں کا نظم و ضبط قائم رکھتی تھی۔
’سنہ 2004 میں سی آر پی سی کے تحت سول انتظامیہ کو کسی حد تک واپس ملنے والے اختیارات سے وہ کمی پوری نہیں ہوئی جو پرانے نظام کے خاتمے سے پیدا ہوئی تھی۔‘
پرانے نظام کی افادیت کیا تھی؟
اس کے حق میں راؤ منظر حیات کی دلیل توجہ طلب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ نظام ہے جس کے بطن سے ریاست کا انتظامی ڈھانچہ برآمد ہوا تھا، اس لیے اس کی تحلیل غیر مناسب تھی۔
’اس کے مقابلے میں موجودہ نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ پولیس ضلعی انتظامیہ کے ماتحت نہیں رہی۔ ایک حاضر سروس ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں کہ اگر ایسے معاملات میں پولیس ان کے ساتھ تعاون نہ کرے تو وہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔‘
’بازار میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اورمصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کے علاوہ دیگر محکموں کے جو اہلکار کام کرتے ہیں، ان کا رکھ رکھاؤ، چال ڈھال اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ دوسرے معنوں میں ان کی چوںکہ تربیت ہی اس کام کے لیے نہیں ہوئی، اس لیے وہ غیر مؤثر رہتے ہیں اور مارکیٹ فورسز ان سے خوف بھی محسوس نہیں کرتیں۔‘
’نئے نظام کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ سول انتظامیہ ہو یا دیگر محکموں کے افسران سنہ 2001 سے 2004 تک کے خلا کے باعث یہ لوگ اس اہم ذمہ داری کے لیے ماضی کے مقابلے میں کم اہلیت رکھتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ان کی اہلیت میں اضافے کے لیے حکومت میں فکر مندی بھی دکھائی نہیں دیتی۔‘
ایک سینئر بیوروکریٹ کے خیال میں بہت کم اہلکار اپنے کام کو نسبتاً بہتر سمجھتے ہیں اور ان کی کارکردگی دیگر کے مقابلے میں بہتر ہے۔
ان کے مطابق ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی کارکردگی دیگر کے مقابلے میں بہتر ہے، اگرچہ مقدمہ بنانے اور چلانے کی اہلیت ان میں بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
’مسئلے کی ایک اور بڑی وجہ مارکیٹ کمیٹیوں کی تشکیل کا طریقہ کار ہے۔ ان کمیٹیوں میں مارکیٹ فورسز کی نمائندگی تو بڑی مؤثر ہوتی ہے لیکن صارفین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اپنے کیرئیر کے دوران انھوں نے مظفر گڑھ میں صرف ایک پروفیسر کو دیکھا جو صارفین کی نمائندگی بہت مؤثر انداز میں بڑی جرات مندی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
مارکیٹ کمیٹیوں کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟
یہ راز سمجھ لیا جائے تو مہنگائی کا پورا مسئلہ سمجھ میں آ جاتا ہے۔
قوانین کے مطابق ان کمیٹیوں کی تشکیل ضلعی انتظامیہ اپنی صوابدید کے مطابق اراکین کی نامزدگی سے کرتی ہے لیکن عملی صورت یہ ہے علاقے کے اراکین پارلیمنٹ اپنے اثر و رسوخ سے ان اراکین کی نامزدگی کراتے ہیں۔ اسی طرح ان کمیٹیوں کے صدور اور سیکرٹریوں کا تقرر بھی ہوتا ہے جو ان منصبوں پر آ کر سرپرستوں یا بیشتر صورتوں میں خود اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
تو کیا صرف اتنی ہی وجہ ہے کہ حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے؟
اس سوال کے جواب میں سینئر بیوروکریٹ نے کہا کہ ’صرف یہی نہیں بلکہ حکومت اس مسئلے کے حل کی خواہش ہی نہیں رکھتی۔ اگر اسے یہ فکر ہوتی تو خلاف روایت وزیراعظم کی زیر صدارت یکے بعد دیگرے اجلاس کرنے کے بجائے نظام کو بہتر بنایا جاتا۔‘
سفید بالوں والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے جواب دے کر بات ہی ختم کر دی۔
یہ تحقیقی مضمون بی بی سی اردو میں شائع ہوا ہے https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56810321