تحریک لبیک بالآخر کالعدم ہو گئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے؟
یہ مذہبی گروہ حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر عمل درآمد کے حق میں آواز بلند کرنے کی پاداش میں خلاف قانون قرار دیا گیا ہے جو خود اسی حکومت نے اس کے ساتھ کیا تھا۔
چند ماہ قبل جب فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی حمایت پر بات کرنے والا ایک ٹیچر قتل کر دیا اور فرانس کے صدر نے اس کے حق میں بات کی تو تحریک لبیک اپنی روایت کے مطابق سڑکوں پر نکل آئی اور بالکل اسی طرح نظام زندگی معطل ہو گیا جیسے حالیہ مظاہروں میں ہوا ہے۔ اس موقع پر مظاہرے ختم کرانے کے لیے حکومت نے اس شدت پسند گروہ کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں اس سے وعدہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیاجائے گا۔ یہ معاہدہ ہوا تو ریاست و مملکت کے انداز کار کو سمجھنے والوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں اور سوچا کہ حکومت کے جن نمائندوں نے یہ معاہدہ کیا ہے، کیا اوسان سلامت تھے؟
فرانس کے سفیر کو ملک بدر کا معاہدہ تو ماضی قریب کی بات ہے، اس سے پہلے یہی مذہبی گروہ تھا جس نے وفاقی دارالحکومت کے دروازے پر بیٹھ کر قانون کو ہاتھ میں لیے رکھا لیکن ریاست کی رٹ کو داؤ پر لگا کر اس کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اور اس گروہ جو بجائے کیفر کردار تک پہنچانے کے اس کے دہشت گردوں کو پیسے دے کر گھروں کو روانہ کیا گیا، آج حالات بدلے ہیں تو اس پر پابندی عاید کر دی گئی ہے۔
ریاست پاکستان سے غیر مشروط محبت کرنے والے اس پابندی کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا آئندہ کبھی کسی سیاسی مقصد یا مصلحت کی خاطر ایسے قانون شکن گروہ کی قانون شکنی آنکھیں تو بند نہیں کی جائیں گی؟
ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ 1953ء میں لاہور کے مارشل لا سے لے کر تحریک لبیک تک ایسے بدقسمت واقعات کی طویل تاریخ موجود ہے جب ضرورت تھی، اس کے جرائم سے آنکھیں بند کر لی گئیں اور جب موقع ملا، ان پر پابندی عاید کر کے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والے دنوں میں ماضی سے بڑھ کر قانون شکنی اور خونریزی ہوئی۔ تحریک لبیک ہر پابندی کے بعد بھی یہی سوال ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے اور عام آدمی سوچ رہا ہے کہ یہ اچھی کارروائی ضرور ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ کیا ماضی کے بدصورت واقعات سے سبق لے کر ہمیشہ کے لیے راہ راست اختیار کر لی گئی ہے یا یہ بھی محض ایک وقتی مصلحت ہے؟