قبلہ سید ضمیر جعفری نے ظریفانہ شاعری کی روایت ہی پسماندگان ادب کے لیے ورثے میں نہیں چھوڑی بلکہ ایک خوب صورت ادبی جریدہ بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ راول پنڈی سے “چہار سو” کے نام سے شائع ہونے والا یہ خوب صورت پرچہ جعفری صاحب کی اسی روایت کا پرچم اپنے مدیر مسئول گلزار جاوید کی قیادت میں اٹھائے ہوئے ہے۔ سید ضمیر جعفری اور ان کے پرچے ‘چہار سو” کی یاد بلا سبب نہیں آئی بلکہ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ یہ سبب ہے، چہار سو کا محمد حمید شاہد نمبر۔
ادب میں محمد حمید شاہد کئی جہتیں ہیں۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بڑے دلچسپ انداز میں کیا تھا۔ جس زمانے میں ریڈیو پاکستان پر شاہ بلیغ الدین اور ان کے مختصر دینی، تاریخی، اصلاحی شذرے روشنی کی دھوم مچی ہوئی تھی، حمید شاہد ابھی طالب علم تھے اور دیوار دبستاں پہ لام الف لکھا کرتے تھے۔ حمید شاہد نے یہ پروگرام سنا اور پسند کیا لیکن انھیں اس پر ایک اعراض بھی تھا۔ اعتراض بڑا دل چسپ تھا۔ وہ کہتے کہ یہ کیا ہوا کہ عین اس وقت جب سامع بات کہنے والے کی سطح پر آکر اسے سمجھنے اور اس کے ساتھ چلنے پر ابھی آمادہ ہو ہی رہا ہوتا ہے کہ بات ختم ہو جاتی ہے۔ بات تو جب ہے کہ بات کہنے والا اپنے مخاطب اور سامع کی انگلی پکڑے اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلے۔ انھوں نے یہ بات سوچی اور اپنے دوستوں کے حلقے میں بھی کہہ دی۔ آگے راوی خاموش ہے کہ ردعمل کیا ہوا؟ ممکن ہے کہ کسی نے کہہ دیا ہو کہ اعتراض کرنا آسان ہے، بات تو جب ہے کہ خود کچھ کر کے دکھاؤ۔ یہ بات ان کے دل کو لگ گئی اور انھوں نے ایک منصوبہ بنایا اور زرعی یونیورسٹی ہاسٹل کے ایک کیوبیکل میں کتابیں لے کر بیٹھ گئے اور چند مہینوں کے اعتکاف کے بعد باہر نکلے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جو بعد میں “پیکر جمیل” کے نام سے شائع ہوئی۔
شاہ بلیغ الدین کا اسلوب بھی اچھوتا اور دل کو موہ لینے والا تھا لیکن اس کتاب کا اسلوب جدا گانہ تھا جو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذخیرہ کتب میں ایک شان دار اور خوش گوار اضافے کے طور پر قبول کیا گیا۔ یوں، زرعی مضامین کا ایک نوجوان طالب علم ایک صاحب طرز ادیب کے طور پر متعارف ہوا۔ اس کے بعد چل سو چل۔
حمید شاہد کا شاعری سے بھی شغف رہا لیکن افسانے اور تنقید نے انھیں پکڑ لیا، سچ تو یہ ہے کہ خود حمید شاہد کو بھی اس تگ و تاز میں لطف آیا اور وہ ان شعبوں کے ہو کر رہ گئے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مختلف انداز میں لکھنے کی کوشش نے ایسی برکت پیدا کی کہ ہمارے جدید افسانے میں ایک نیا رجحان متعارف ہو گیا جس میں بہت سے ایسے موضوعات بھی در آئے جن کے بارے میں ہمارے ہاں سوچنا بھی ذرا مشکل تھا۔
چہار سو کا یہ شمارہ حمید شاہد کے اسی سفر کی کہانی بیان کرتا ہے جس میں ان کا نمائندہ افسانہ سؤرگ میں سور، چند تنقیدی مضامین اور ناول مٹی آدم کھاتی ہے کاایک باب شامل کیا گیا ہے۔
حمید شاہد کا یہ ناول المیہ مشرقی پاکستان کی کہانی ایک مختلف تخلیقی انداز بیان کرتا ہے جس میں اس تکلیف دہ سانحے کا دکھ ذاتی اور اجتماعی دونوں سطحوں بیان ہوا ہے۔ یہی اسلوب انھیں اپنے ہم عصر ادیبوں میں ممتاز کرتا ہے۔
چہار”چہار سو” نے اپنا یہ شمارہ ہمارے عہد کے ایک ممتاز ادیب سے معنون کر کے ایک مستحسن روایت کا احیا کیا ہے۔ ہم ‘چہار سو’ کے حمید شاہد نمبر کا خیر مقدم کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ممتاز ادیب جناب گلزار جاوید کی قیادت میں ادب کی خدمت کرنے والا یہ پرچہ مزید ترقی کرے گا اور شعر و ادب کی خدمت میں ممتاز مقام حاصل کرے گا۔