سکردو ائیرپورٹ سے کرنل ممتاز نے ہمیں وصول کیا اور ہم مارا ماری کرتے ہوئے کارگل روانہ ہو گئے۔دوپہر ڈھلنے والی تھی جب یہ قافلہ حمزی غنڈ پہنچاجہاں انین رنگز(Onion Rings) کے ساتھ چائے منتظر تھی۔ چائے کے پہلے ہی گھونٹ نے مسافروں کو تازہ دم کر دیا۔ روانگی میں کچھ تاخیر تھی، آصف فاروقی اور میں اٹھے، ٹہلتے ہوئے میس کے پچھلے دروازے سے نکلے اورشور مچاتے دریا کو جا پکڑا جو وادی کے دامن میں پاؤں پسارے پڑا تھا۔ دریا کا پاٹ چوڑا تھا، لہٰذا اس کے شور میں کشادگی تھی جو اس کی لہروں پر تیرتی ہوئی بلند ہوتی اور سورج کی کرنوں کے ساتھ رنگ بدلتی چوٹیوں سے دھماکے کے ساتھ ٹکرا کر وادی میں بکھر جاتی۔ ہم صحرائی، پوٹھوہاری باشندے قدرت کا یہ عظیم الشان منظر دیکھتے سحر زدہ سے آگے بڑھتے گئے، یہاں تک کہ پتھروں سے سر ٹکرانے والے چھینٹوں نے ہمارے چہروں بوسے لیے: ’کیا اس ویرانے میں کوئی کٹیااس مسافر کو پناہ دے سکتی ہے؟‘۔
میں نے بہ آواز بلند خیال آرائی کی۔ آصف جو سورج کی کرنوں میں رنگ بدلتے پانیوں کو انہماک سے دیکھ رہے تھے، پلٹے اور ایک پراسرار سی نگاہ مجھ پر ڈالی، اس مشکل شخص کو جواب دینا آسان نہ ہوتا، لہٰذا میں اپنے دل میں آئی بات کہتا چلا گیا:
’جہاں، وہ کتابیں جو ابھی تک لکھی نہیں گئیں اوروہ خیالات جو ابھی تک کنوارے ہیں، انھیں سوچیں اور پڑھیں پھر ذرا دم لینے کو دل چاہے تو چمکتے پانی سے نگاہیں اٹھیں اور آسمان میں چھید کرتی ہوئی چوٹیوں تک جا پہنچیں‘۔
میں نے اپنی بات مکمل کی اور ہم سفر کی طرف دیکھا۔ آصف کے خیالات میں نزاکت اور نفاست بھی ہوتی ہے لیکن دوستوں کے حلقے میں اُن کی شہرت ایک ایسے حقیقت پسندکی ہے جو آسمان پر اڑتے ہوئے بھولے بادشاہوں کو زمین پر گرانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ اس سے پہلے کہ ان کے پھڑپھڑاتے ہونٹوں سے طنز میں گندھا ہوا کوئی جملہ جھڑتا اور خوابوں کے شیش محل کی کرچیاں اس چمن زار میں بکھر جاتیں، ایک جانی پہچانی، دھیمی اور حلیم آواز نے مداخلت کی:
’اس جھونپڑی میں ایک چٹائی میرے لیے بھی بچھا لینا‘۔
آصف کے ہونٹ ایک بار پھر پھڑپھڑائے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، جانی پہچانی آواز کانوں سے دوبارہ ٹکرائی:
’خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘۔
لگتا تھا کہ آصف کی حقیقت پسندی ان کہی ہی رہ جائے گی کیوں کہ سہیل اگلے ہی لمحے قدم بڑھا کر ہمارے بیچ آکھڑے ہوئے اور چمکتے سورج کی کرنوں سے مچ مچاتی آنکھیں دائیں بائیں گھما کر ہمارے تاثرات کا مطالعہ کیا۔ آصف کو اب موقع مل گیا اور کہا:
’یک نہ شد دو شد‘۔
لیکن اس حقیقت پسندی پر خواب ایک بار پھر غالب آیا جب سہیل نے زباں کھولی۔ سہیل دوہرے جسم کے متناسب قد کے جواں سال تھے لیکن جب بات کرتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے کسی بھاری بھرکم بزرگ کی محبت و شفقت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے:
’وہ جو کہتے ہیں کہ گڑ نہ ملے تو گڑ جیسی بات کر لینی چاہئے، یہ اس لیے ہے کہ اللہ اسباب کودیکھ کر نہیں نیت کو دیکھ کر اسباب پیدا کر تا ہے‘۔
بتایا گیا تھا کہ یہ شخص دفاعی نامہ نگار ہے اور خارجہ تعلقات کی پیچیدگیوں کا رمز شناس ہے۔ ایسی خوبیاں رکھنے والے لوگ کتنے ہی نفیس اور حساس کیوں نہ ہوں، شاعرانہ نازک خیالی سے بہت دور ہوتے ہیں مگر:
’یہ شخص تو نرا شاعر ہے‘۔
میں نے یہ سوچا اور اپنے دل کی بستی کے ایک کوچے میں اس کے لیے کٹیا کی تعمیر شروع کردی۔ اس کے بعد ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ماں کے بارے میں اشفاق( احمد) صاحب کی ایک تحریر کی جزیات تک میں اتر گئے جس میں انھوں نے مِٹی ہوئی ایک عورت کا ایسا دل نشیں تذکرہ کیا ہے کہ انسان پڑھتا جاتاہے اور خود بھی ہستی سے نیستی میں اترتا چلا جاتا ہے۔ نیستی کے اس سفر میں معلوم ہی نہ ہوسکا کہ کب بلاوا آیا جس پر لبیک کہتے ہوئے ہم اُس جیپ میں جا بیٹھے جس نے ہمیں اگلے مورچوں تک لے جانا تھا جن کے بارے میں بتایا گیا کہ تھا کہ وہاں کشمیر کی آزادی کے لیے تاریخ کی عدیم النظیر جنگ لڑی جارہی ہے لیکن ہم دونوں اشفاق صاحب، ان کی ماں اُس مہربان ماں کے وسیلے سے اپنی ماؤں کی خوبیوں اور ان خوبیوں کے بیان کے لیے اسلوب کی باریکیوں میں ایسے ڈوبے کہ دریائے سندھ میں ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ ہمیں ذرا بھی خبر نہ ہوئی کہ جیسے ہی مسافر جیپ میں سوار ہوئے، جیپ ان کے وزن سے کھسکتی ہوئی دریا کی طرف بڑھنے لگی، دریا کے ایک ایسے حصے کی طرف جو اُس دریا سے بالکل مختلف تھا جس سے ہم ابھی دوستی لگا کر آئے تھے۔ اِس طرف کا دریا تنگ، نوکیلے پتھروں میں گھرا ہوا اور غصے میں جھاگ اڑاتی ہوئی اُس پاگل ندی کی مانند تھا جس میں گرنے والوں کی کوئی خبر آج تک نہ کسی کو نہیں ملی۔
پہلے ایک چیخ ہمارے کانوں سے ٹکرائی، اس کے بعد چیتے کی طرح اڑتا ہوا لانس نائک جیپ میں کودا اور ہنڈ بریک کھینچ اپنی نشست پر گرا، یوں خبر ہوئی کہ ابھی کیا حادثہ ہونے والا تھا اور وہ کیسی پھرتی تھی جس نے کچھ ایسی جانیں بچائی تھیں جو کچھ دیر پہلے تک ا س متوقع حادثے کی ہول ناکی سے بھی بے خبر تھیں۔ جان میں جان آئی تو ایک مسافر نے لانس نائک کی پھرتی کی داد دی۔ دوسرے مسافر کو ذرا دور کی سوجھی، کہا کہ پھرتی نہ دکھاتا تواس کا کورٹ مارشل یقینی تھا۔ سہیل نے یہ مکالمہ خاموشی کے ساتھ سنا، مسکرائے اور کہا:
’یار یہ تو بتاؤ کہ بریک فیلئر پر آج تک کسی کا کورٹ مارشل ہواہے؟‘۔
اس مختصر، معصوم اور تہہ دار جملے نے بحث کا رخ پھیر دیا اور کارگل کی جنگ سمیت تاریخ کے بہت سے ایسے واقعات پر تبادلہ خیال شروع ہوگیا جسے پی کیپ کو سنبھالتے ہوئے فرنٹ سیٹ سنبھالنے والے میزبان کی آمد کے بعد روک دینا ضروری تھا۔
جیپ کے مسافر موضوع بدلنے کے کوشش میں جس وقت کچھ بے معنی جملوں کے تبادلے میں مصروف تھے، یہ مسافر سہیل کے جملے کی گہرائی، صاحب جملہ کے تاریخی شعور اور اس کی جرأت اظہار پر بڑی حیرت اور کسی قدر رشک کے ساتھ غور کر رہا تھا۔ ہمارا کارگل کا سفر، دشمن کے سامنے سر بہ کف جوانوں کے جذبات اور زمینی حقائق کے مطابق حالات کا تجزیہ کرنے کے ضمن میں ایک بڑا سبق ثابت ہوا، اس سے بڑا سبق یہ تھا کہ ساتھیوں اور ہم سفروں سے سیکھا کیسے جاتا ہے اور ان کے ساتھ کسی پائیدار تعلق کوبنیاد کیا چیز فراہم کرتی ہے۔ اس سلسلے میں جھیل سد پارہ میں کشتی کی سیر اور پانی کے وسط میں لکڑی کے اس مصنوعی جزیرے پر ہوا کے نم جھونکوں میں گزارے ہوئے چند گھنٹے میں کبھی نہ بھول پاؤں گا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک مہربان نے سعودی عرب سے لوٹتے ہوئے نو بینڈ کا جیبی ریڈیو مجھے لاکر دیا تھا، جنگ کی خبروں سے بروقت آگاہی کے شوق میں یہ ریڈیو میں ساتھ اٹھا لایا تھا۔ سدپارہ میں قیام کے تمام عرصے میں یہ ریڈیو سہیل کے پاس رہا اور وہ لکڑی کی ریلینگ سے ٹیک لگا کر اسے کان سے چپکائے دیر تک تنہا بیٹھے رہے۔ واپسی کے سفر پر ریڈیو واپس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یار، فاروق صاحب! آپ نے میرے ایک پرانے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ آصف اور میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تو کہا کہ جانے کیا وجہ رہی ہوگی کہ میں سوچا کرتا تھا کہ جھیل کا کنارہ ہو، کوئی بھولی بسری کشتی کہیں دور سے آتی دکھائی دیتی ہو، پھر دور نکل جاتی ہو اور میں ادبٓھر کان سے ریڈیو لگا کر نورجہاں کا گانا سنوں، ہوا کے جھونکے سے جس کی آواز کبھی ڈوب جائے، کبھی صاف سنائی دے۔ سہیل اُس روز اپنی اِس خوابیدہ آرزو کی تکمیل پر بہت خوش تھے اور بار بارمیرا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ شکریے کی تکرار بڑھی تو میں نے محجوب ہو کر کہا کہ یار، شرمندہ تو نہ کریں۔ انھوں نے یہ بات خوش دلی کے ساتھ سنی اور کہا، شکریہ ادا کرنے والوں پر کرم نوازی بڑھ جاتی ہے، آزمائش شرط ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سہیل اپنے ہم سفروں کو پیچھے چھوڑ کر جس طویل سفر پر تنہا روانہ ہوئے ہیں، وہاں ان پر کرم نوازی کی برسات ہورہی ہوگی۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ اللہ کے اُن شکر گزار بندوں میں سے ایک تھے جنھیں کوئی پریشانی، کوئی آزمائش اور کوئی امتحان کبھی پریشان نہیں کرتا۔