شہباز گل بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئے جن میں سے کسی پر جوتا چلا یا سیاہی پھینکی گئی۔ احسن اقبال سے البتہ وہ کئی قدم پیچھے ہیں، سیاسی اختلاف کی وجہ سے جن کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔
شہباز گل ہوں، مریم اورنگ زیب ہوں یا کوئی اور، سیاسی اختلاف کی وجہ سے اس کے ساتھ بد سلوکی، حملہ، سیاہی، انڈے یا ٹماٹر پھینکنا، ہر عمل غلط ہے۔ یہاں لفظ ‘غلط’ کافی نہیں، اسے جرم کہنا جاہئیے۔ اس جرم کا جو بھی مرتکب ہو، اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہئیے بلکہ ایسے لوگوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ شہباز گل پر حملہ کیوں کیا گیا؟ اس حملے کی کسی طرح سے حمایت یا اس کا جواز پیش کیے بغیر گزارش ہے کہ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی طلاقت لسانی سے ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ ان کا کوئی جذباتی مخالف خود کو بے بس پاتے ہوئے ایسی بے ہودہ حرکت کا مرتکب ہو سکتا تھا۔ ان کے بیانات اور مخالفین پر حملوں اور ان کا تمسخر اڑانے کا انداز بہت اشتعال انگیز تھا، سمجھ دار لوگ معاملات کو اس سطح پر نہیں لے جاتے۔
معاشرہ اس وقت بے انتہا تلخی اور کشیدگی کا شکار ہے لیکن شہباز گل پر حملے کے افسوس ناک واقعے کو اس کیفیت سے نکلنے کی بنیاد بنا لیا جائے تو اس سے بہتر کیا ہوگا۔ امید ہے کہ مخالفین کے زخموں پر نمک چھڑکنے والی حکومت اور اپنے زخم چاٹنے والی حزب اختلاف یہاں فل اسٹاپ لگانے اتفاق کر لے گی۔ ایسا اگر نہ کیا گیا تو معاشرہ اس انتہا پر جا نکلے گا، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔
لاہور پولیس نے شہباز گل پر حملے کے مرتکب تین افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسلام آباد پولیس شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور مریم اورنگ زیب وغیرہ پر جملے کے مرتکبین کو بھی اسی سرعت سے پکڑ لیتی تو اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ حکومت ایک ہی جیسے جرم کے ملزم کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک کرتی ہے، اس کا پیمانہ اپوزیشن کے لیے بدل نہیں جاتا۔