سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ بھی انجام کو پہنچا اور حکمراں اتحاد کے مطابق ریاست کے امیدوار صادق سنجرانی کامیاب ہو گئے۔ اس کامیابی میں حکمراں اتحاد کے علاوہ انھیں حزب اختلاف کے چند ووٹ بھی ملے ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے سات مسترد شدہ ووٹوں کا مقدمہ الیکشن ٹریبونل میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ بظاہر یوسف رضا گیلانی کا کیس مضبوط پے تاہم ٹربیونل سے جو فیصلہ بھی آئے تاریخ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔
تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کو بڑی محنت اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس انجام کی طرف پہنچایا جا رہا ہے جہاں عوام اس سے مایوس ہو جاتے ہیں۔
سینیٹ الیکشن سے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن تک جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس سے سیاسی نظام اور سیاسی عمل مسلسل بے اعتبار ہو رہا ہے۔ اس عمل سے حزب اقتدار فائدے میں رہے گی اور حزب اختلاف۔
ایسے بحران میں ضرورت تو یہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف مل بیٹھیں اور نظام کو ناکامی سے بچائیں لیکن اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ گویا ایک اور جرم ہے جو اس عہد کے اہم کرداروں کے نام لکھا جائے گا۔ ان تمام واقعات نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ہمارے سیاسی عمل پر سیاسی وفاداری اور اصول پر کچھ دیگر عوامل بالادستی رکھتے ہیں۔
آج کے ایپی سوڈ کاایک اہم واقعہ خفیہ کیمروں کی تنصیب ہے۔ اس واقعے کی تحقیقات ابھی باقی ہیں لیکن یہ واقعہ بھی ایسے واقعات میں شمار ہو گا جو اس نظام کی ناکامی کے اسباب میں گنا جائے گا۔
لہذا اب یہ کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی ناکامی پر افسوس یا کامیابی کا جشن منائے۔