قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 کا ضمنی انتخاب کالعدم ہوا۔ قومی تاریخ میں یہ ایک منفرد فیصلہ ہے۔ 1977ء میں بھی ایسا ہی ایک فیصلہ ہوا تھا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار حفیظ اللہ چیمہ کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا گیا تھا لیکن اس فیصلے اور حالیہ فیصلے میں فرق یہ ہے کہ حفیظ اللہ چیمہ کے نتیجے کا اعلان ہو چکا تھا،اس بار یہ کام نتیجے کے اعلان سے بھی پہلے ہو گیا۔ حالیہ فیصلہ قومی سیاسی زندگی میں ایک اچھی مثال کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی فریق اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اس مثال پر ایک قیمتی اثاثے کے طور پر متحد ہو کر آئندہ کے انتخابی بد عنوانی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔
الیکشن کمیشن کا تازہ فیصلہ ہماری توجہ چند مزید امور کی طرف بھی مبذول کراتا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ڈسکہ میں کس جانب سے بد عنوانی کی گئی، اصل اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی کلاس میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انتخابی بد عنوانی پر یقین رکھتے ہیں اور گلی کوچوں تک پہنچے ہوئے سوشل اور ریگولر میڈیا کی بیداری کے باوجود ایسے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔
جہاں تک تحریک انصاف کا معاملہ ہے، اس جماعت نے انتخابی بد عنوانی کے خلاف ماضی میں بڑا مضبوط مؤقف اختیار کیا تھا، اس کے سیاسی مؤقف سے اختلاف رکھنے کے باوجود غیر جانب دار حلقوں نے اس کا خیر مقدم کیا تھا لیکن ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے بعد اس جماعت کے لوگوں کی طرف سے جس قسم کا لب و لہجہ اختیار کیا گیا، وہ اس مؤقف سے مختلف تھا جو اس جماعت نے ماضی میں اختیار کر رکھا تھا۔ اس سے تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ انتخابی شفافیت کے معاملے میں اس جماعت کے معیارات مختلف ہیں۔
ڈسکہ ضمنی انتخاب کے معاملے میں یہ سب باتیں بہت اہم ہیں لیکن اس سے بھی اہم بات ایک اور ہے، وہ ہے حلقے کے عوام کی بیداری اور سیاسی کارکنوں کی حوصلہ مندی اور ان کا دلیرانہ تحرک۔ قومی سیاسی زندگی میں یہ ایک نیا رجحان ہے، اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ماضی میں کراچی میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ ڈسکہ کی طرح پولنگ اسٹیشن ابتدائی پانچ چھ گھنٹے بند رہتا، اس دوران بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگا دیے جاتے، اس طرح ہزاروں اور کبھی کبھار لاکھوں ووٹ کی برتری سے ایم کیو ایم کا امیدوار کامیاب ہو جاتا۔ یہ ایسے حقائق تھے جن سے سب واقف تھے لیکن آنکھیں بند کر لیتے تھے۔ ڈسکہ میں یہ سب کچھ بھی ہوا اور اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ لیکن ماضی کی طرح رائے عامہ اور سیاسی کارکن نے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا، اسے نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ اس کے خلاف پوری قوت سے آواز بھی اٹھائی۔ قومی سیاست میں یہ ایک مثبت اور قیمتی پیش رفت ہے۔
ہمارے سیاسی کارکن میں یہ ہمت کیسے پیدا ہو گئی؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ سیاسی کارکن کو یہ ہمت سیاسی قیادت کے ہمت پکڑنے سے ہوئی۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب نواز شریف نے اپنے کارکن سے دو باتیں کہی تھیں، یعنی ووٹ بھی دینا ہے اور اپنے ووٹ کا پہرہ بھی دینا ہے۔ سیاسی قیادت اگر ہمت کر کے تو بڑے بڑے کارنامے رونما ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف کی ایک ہی اپیل نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کی تمام سیاسی قوتیں بلا امتیاز اس اصول پر متفق ہو جائیں کہ صرف ووٹ نہیں دینا، ووٹ کا پہرہ بھی دینا ہے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی، ان شاءاللہ۔ قومی سیاست کو ایک نیا طاقت ور رجحان دینے ڈسکہ کے سیاسی کارکنوں کو دلی مبارک باد۔