ضمنی انتخابات سے دو باتیں سمجھ میں آئیں، پہلی یہ کہ آواز خلق کیا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے بعد خیبر پختون خوا اور پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو غیر معمولی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری یہ کراچی کا بھوت پنجاب میں داخل ہو چکا ہے۔ کراچی کے انتخابات بڑے یاد گار ہوا کرتے تھے، دن بھر پولنگ اسٹیشن بند رہتے لیکن رات کو معلوم ہوتا کہ ووٹ تو ٹوٹ کے برسے ہیں۔ اگر کہیں کوئی دیوانہ مقابل آنے کی کوشش کرتا تو گولیاں چل جاتیں، لاشیں گر جاتیں۔ ڈسکہ میں کیا ہوا، یہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان نے گزشتہ ستر پچھتر برس میں بہت سفر طے کیا ہے اور اس کی بہت قیمت بھی دی ہے۔ ستر کے الیکشن میں انتخابی نتائج تسلیم نہ کر کے آدھا ملک کھویا، ستتر میں دھاندلی کے تجربے سے سیکھا کہ اس راہ میں دار رسن بھی آتے ہیں اور منزل بھی کھوٹی ہوتی ہے۔ ان دو حادثوں کے بعد بھی ہم کچھ سمجھے، کچھ نہ سمجھے، نتیجہ یہ نکلا کہ منزل ایک بار پھر کھوٹی ہو گئی۔ جنرل مشرف کے آٹھ برسوں کے تلخ تجربات نے سکھایا کہ تیتر اور بٹیر کی مسلسل لڑائی میں نہ چونچ بچتی ہے اور نہ دم، لہٰذا عقل کے ناخن لیے، اس کے نتیجے میں سیاست ٹھہراؤ پیدا ہوا اور ماضی میں ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے والوں نے حقائق کو تسلیم کر کے ریاست کی گاڑی کسی قدر سلیقے سے چلانے کی کوشش کی۔
یوں ملک سیاسی بلوغت کے راستے پر چل نکلا اور میدان سیاست میں غیض و غضب، حسد اور انتقام کی آگ بجھا کر جیو اور جینے دو کی روایت مستحکم ہونے لگی۔ اس خوش نما سیاسی منظر نامے میں تحریک انصاف کا ظہور ہوا اور ملک ایک بار پھر ان ہی پرانی الجھی ہوئی بھول بھلیوں میں الجھ گیا جن پر چل کر ماضی میں ہمیں عبرت ناک سبق ملے تھے۔
ڈسکہ میں جو کچھ ہوا، مسلم لیگ نے اس کا الزام تحریک انصاف کے علاوہ خلائی مخلوق پر بھی عائد کیا ہے۔ سابق قبائلی علاقوں کے حلقہ این اے 45 کے نتائج کے بارے میں جمیعت علمائے اسلام نے بھی اسی قسم کے الزامات عاید کیے ہیں اور کہا ہے کہ نتائج تبدیل کیے گئے۔ اس حلقے کیا ہوا، اس کی تفصیلات کا انتظار ہے لیکن ڈسکہ میں جو کچھ ہوا، اس کے مناظر پوری قوم کے سامنے آ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بیان کو تو اس سلسلے میں باقاعدہ ایف آئی سمجھنا چاہئے جس کا سارا بوجھ ظاہر ہے کہ حمکرانوں پر ہے۔ اس بیان سے 1977ء کے الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان کے بیان کی یاد تازہ ہو گئی۔ انتخابی دھاندلی پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہماری سجی سجائی دکان کو لوٹ لیا گیا۔
یہ سب اچھا نہیں ہوا۔ یہ کسی ایک جماعت کی فتح اور کسی کی شکست کا معاملہ نہیں، اس طرز عمل سے عوام سیاسی عمل سے ہی مایوس ہو جائیں گے اور ملک ایک ایسے اندھے کنوئیں میں جا گرے گا جس سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے ملک کی سیاسی قیادت پر عمومی طور پر اور حکمرانوں پر بالخصوص یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔ اس بدنما کیفیت سے نکلنے کا پہلا قدم صبح و شام آگ اگلنے والے بھونپووں کی زبانیں بند کر کے اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہم چاہیں تو این اے 75 کے واقعات کو قدرت کی طرف وارننگ سمجھ کر راہ راست پر آ جائیں ورنہ آگے تاریکی ہے۔