شوبز اور خاص طور پر فلم ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع ہیں۔ دنیا کا کوئی ترقی یافتہ ملک ایسا نہیں ہے جہاں اس ذریعے کو معاشرے کی ترقی کے لیے نہایت ہنر مندی سے استعمال نہ کیا گیا ہو۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور سوویت یونین، دونوں نے اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے کے لیے اس ذریعے کو اختیار کیا۔ اسی طرح نظریاتی جنگیں بھی اسی کے ذریعے لڑی گئیں۔ ہمارے قریب میں بھارت نے اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے اور ایران نے معاشرتی ترقی اور عوام کی تربیت کے لیے۔
پاکستان میں اس شعبے میں جوہر قابل کی تو کوئی کمی نہیں لیکن کچھ معلوم اور کچھ نامعلوم وجوہات کے باعث ہمارے فن کار اس شعبے سے دور رہے ہیں اور اگر کوئی اس جانب کوئی آیا بھی ہے تو کسی ایسے ایجنڈے کے تحت جس سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہوا۔
حال ہی میں ملک کے قابل فخر گلوکار شہزاد رائے نے ‘کون کس کا آدمی ہے’ کے عنوان سے ایک گانا تخلیق کیا ہے جسے اس میدان میں ایک جرات مندانہ کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔
شہزاد رائے اور ان کے ہم عصر بعض فن کاروں نے ماضی کی لگی بندھی روایات کو توڑا ہے اور ایسے موضوعات کو چھیڑنے کی کوشش کی ہے، اس سے پہلے جنھیں علاقہ غیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس اعتبار سے شہزاد اور ان کے ہم عصر قابل مبارکباد ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے فن کاروں کی اس نسل کا سیاسی شعور نہ صرف بلند ہے بلکہ وہ ایسی بات کہنے کی جرات بھی رکھتے ہیں جس پر آواز اٹھانا مشکل سمجھا جاتا ہے۔ ان مظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
اب آتے ہیں شہزاد رائے کے تازہ گانے کی طرف۔ یہ گانا مواد کے اعتبار سے شان دار ہے لیکن اس کی پروڈکشن اور اس سے پہلے اس کا کنسیپٹ گانے کے مواد سے لگا نہیں کھاتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے مواد کو خراب کرنے کا باعث بنا ہے۔ اس تنقید پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اتنے مشکل موضوع سے مزاحیہ انداز میں ہی نمٹا جاسکتا تھا۔ یہ بات درست ہے لیکن مزاح ایک نہایت سنجیدہ عمل ہے جس میں مسخرے پن کو کوئی دخل نہیں۔ اگر اس گانے کی پروڈکشن کے دوران اس اصول کو پیش نظر رکھا جاتا تو یہ گانا زیادہ بامعنی ہو جاتا اور اس پر تنقید کم سے کم ہوتی۔