پاکستان کے دو مختلف شہروں میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران دو افراد پولیس کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جس کے نتیجے میں پولیس کے بے قابو ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوا ہے اور قومی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جس کے اثرات حکومت پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔
پولیس کے یوں بے قابو ہونے کی وجوہات کو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں کی جانے والی جنرل تنویر حسین نقوی کی اصلاحات میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو اختیارات کو انتہائی نچلی سطح پر منتقل کرنے کے نام پر کی گئیں، جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اور پولیس کے درمیان مصالحت کار کی حیثیت رکھنے والے عنصر یعنی ضلعی انتظامیہ کا وجود برقرار نہیں رہا، جس کے نتیجے میں تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کو انتظامی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ادارہ تعمیر نو (نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو) کی اصلاحات سے پہلے اور دوسرا اس کے بعد۔
ادارہ تعمیر نو کے تحت کی جانے والی اصلاحات سے قبل پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں قیادت ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) کے ہاتھ میں تھی جس کے بارے میں عمومی اتفاق ہے کہ برصغیر کو یہ نظام مغل سلطنت سے ورثے میں ملا اور انگریز حکمرانوں نے اس میں مزید اصلاحات کر کے اسے مضبوط بنا دیا۔
اس نظام کی قوت کا راز اُن وسیع انتظامی اور عدالتی اختیارات میں پوشیدہ تھا جو ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ میں مرتکز تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل تنویر حسین نقوی کی زیر قیادت قائم ہونے والے ادارہ تعمیر نو کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچانے کا منصوبہ تیار کرے تاکہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو زیادہ مؤثر اور تیز رفتار بنانے کے ساتھ ساتھ اس تک عوام کی آسان رسائی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔
نوکر شاہی میں اصلاحات ایک پرانا مطالبہ تھا اس لیے اس کام کو معاشرے میں وسیع پذیرائی حاصل ہوئی۔ پاکستانی بیوروکریسی میں انتہائی مقبول’شہاب نامہ‘ کے مصنف قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ عوام کے ساتھ سول سروسز کے افسروں کا روۤیہ اتنا توہین آمیز تھا کہ اُس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے مشرقی پاکستان میں تعینات ایک افسر کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ سوتے وقت مچھروں سے بچنے کے لیے مچھر دانی کو ٹانکنے کے لیے بانس کی چھڑیوں کے بجائے انسانوں کو کھڑا کر لیا کرتے تھے۔
وزارت داخلہ پاکستان کے ایک سابق سیکریٹری شاہد خان کہتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام میں اس طرز عمل کو فروغ دینے کے مقاصد واضح تھے۔ غیر ملکی حکمران چاہتے تھے کہ اس کے انتظامی افسروں کا رعب داب مقامی آبادی کے خمیر میں داخل ہو جانا چاہیے تاکہ وہ ان کے سامنے سر اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ چاہتے تھے کہ ان کی نفسیاتی کیفیات، عزت نفس حتیٰ کہ ضمیر تک کو کچل کر رکھ دیا جائے۔
ملک کے مختلف مکتبہ ہائے فکر حتیٰ کہ خود بیورو کریسی میں بھی اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی سول انتظامیہ کا یہ کردار کسی نہ کسی طرح برقرار رہا جس سے عوام کے علاوہ سیاسی طبقات میں بے چینی پائی جاتی تھی اور وہ اس میں تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بیورو کریسی عوام کے علاوہ اہم سیاسی شخصیات حتیٰ کہ حکومت کی ذمہ دار شخصیات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
نواب آف بھوپال: جب ایک انڈین شہری وزیر اعظم بننے پاکستان پہنچے | فاروق عادل
معاہدہ تاشقند: بھٹو کا وہ بیان جس نے ایوب خان کا کھیل بگاڑ دیا
عوام اور سیاست دانوں کے علاوہ سماج میں کچھ مزید طبقات بھی موجود تھے جنھیں سول انتظامیہ کی اِس بالادستی سے اتفاق نہیں تھا۔ ان طبقات میں عدلیہ اور پولیس کے علاوہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی۔
عدلیہ کو شکایت یہ تھی کہ ضلعی انتظامیہ کو عدالتی اختیارات بھی حاصل ہیں جو اس کے دائرہ کار میں مداخلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ عدلیہ چاہتی تھی کہ ضلعی انتظامیہ سے عدالتی اختیارات لے کر مکمل طور پر اس کے سپرد کر دیے جائیں۔ پولیس اس نظام کے تحت ڈپٹی کمشنرز کو رپورٹ کرتی تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ اسے ضلعی انتظامیہ کی نگرانی سے نکال کر خود مختار بنا دیا جائے۔
اس نظام سے غیر مطمئن تیسرا اور سب سے اہم طبقہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ اس کے عدم اطمینان کی کئی وجوہات تھیں۔ امن و امان کے علاوہ ریاستی زندگی کے بہت سے اہم معاملات کی انجام دہی میں بعض اوقات مختلف ریاستی اداروں کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔
ایسے مواقع پر اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اس طبقے کو ضلعی انتظامیہ کی بالادستی تسلیم کرنی پڑتی تھی اور ان ہی کے زیر صدارت اجلاسوں میں شرکت بھی کرنی پڑتی تھی۔
عدالتی اختیار رکھنے والے ضلعی انتظامیہ کے کچھ اہل کاروں کے ذاتی طرز عمل اور بعض اوقات ان کے منصب کی مجبوری نے بھی معاشرے کے دیگر طبقات خاص طور پر فوجی عہدے داروں میں اس کے لیے تکدر پیدا کیا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف فوج کے سربراہ تھے۔ ان کی ملاقات کراچی کے ایک ساحلی ہوٹل بیچ لگژری کی لابی میں ضلع جنوبی کے ایک ڈپٹی کمشنر سے ہوئی۔
جنرل صاحب نے جو ڈپٹی کمشنر کو ذاتی طور پر جانتے تھے، ان کا نام لے کر کہا کہ تم آج کل کہاں ہوتے ہو؟
ڈپٹی کمشنر نے جواب میں انھیں جب یہ بتایا کہ آپ میری ذمہ داریوں کی حدود میں موجود ہیں تو جنرل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پھر تو تم سے ڈرنا چاہیے۔
بظاہر یہ ایک بے ضرر سی خوش گوار بات چیت تھی لیکن اسی ملاقات میں موجود ایک اور ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کا یہ جملہ در اصل ضلعی انتظامیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک طویل بد مزگی کی نشان دہی کرتا تھا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ ایسے مقدمات جن میں کسی نہ کسی وجہ سے کوئی فوجی ملوث ہوجاتا تھا، ان کی پیروی کے لیے بعض اوقات اعلیٰ فوجی افسروں کو بھی ضلعی انتظامیہ کے افسروں کی عدالتوں میں پیش ہونا پڑتا تھا۔
بعض مقدمات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ انھیں چیمبر میں نمٹا دیا جائے لیکن اکثر دیکھا گیا کہ بعض افسران اس طرح کے مقدمات چیمبروں میں نمٹانے کے بجائے عدالت کے کٹہرے میں نمٹانا پسند کرتے جہاں اعلیٰ افسروں کو بھی کٹہرے میں کھڑے ہونا پڑتا۔ سول اور فوجی بیوروکریسی کے درمیان یہ ایک ایسی بدمزگی تھی جس کی تاریخ بہت طویل تھی۔
جنرل پرویز مشرف نے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کو بیوروکریسی اور خاص طور پر ضلعی انتظامیہ کی تنظیم نو کی ذمہ داری سونپی تو اس کے اور خاص طور پر اس کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ تنویر حسین نقوی کے ذہن میں یہ سارا پس منظر موجود تھا اور یہ اصلاحات بھی اسی ذہن کی عکاسی کرتی ہیں۔
اصلاحات سے قبل نو آبادیاتی روایت کے مطابق ضلعی انتظامیہ کا تعلق اُس کی حدود میں آنے والے کم و بیش تمام محکموں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح ہوتا تھا اور اس کی یہ بالادستی قبول کی جاتی تھی۔
ضلعی انتظامی افسران اور سربراہان ان سرکاری اور ریاستی معاملات میں اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کن کردار کیا ادا کرتے تھے اور بعض اُن ریاستی ذمہ داران کا سامنا بھی آسانی کے ساتھ کر لیا کرتے تھے جن کے سامنے عمومی طور پر دیگر ادارے حتیٰ کہ سیاست دان بھی خاموشی اختیار کیا کرتے۔
ضلعی انتظامیہ کی اس اثر انگیزی کو اگرچہ بہت سے ریاستی عوامل میں دیکھا جاسکتا ہے لیکن چند معاملات ایسے ہیں جن کا عوام کی زندگی اور مفادات کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔
اشیائے ضروریہ کے نرخوں کا تعین اور اس کی پابندی کروانا ان میں سب سے اہم تھا۔ اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں پرائس کنٹرول کمیٹی بنا کرتی جس میں انتظامی افسروں کے علاوہ اہم سٹیک ہولڈرز یعنی تاجروں اور صارفین کے نمائندے شامل ہوا کرتے۔ یہ نظام اگرچہ اب بھی وجود رکھتا ہے لیکن اب مؤثر نہیں۔
تجاوزات کا خاتمہ اور عوامی مقامات پر قبضے کی روک تھام بھی ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داریوں کی حدود میں شامل تھا۔ ضلعی انتظامیہ اب بھی تجاوزات کے خاتمے کے لیے متحرک دکھائی دیتی ہے لیکن پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی کی طرح یہ بھی مؤثر نہیں رہی۔
ماضی میں یہ کارروائیاں اب کی نسبت اس لیے مؤثر رہا کرتی تھیں کہ کارروائی اور سزا کے اختیارات ایک ہی ادارے یعنی ضلعی انتظامیہ کے پاس تھے۔ اصلاحات کے بعد یہ کمیٹیاں اب بھی ڈپٹی کمشنر ہی کی نگرانی میں موجود ہیں لیکن کارروائی کا اختیار پولیس کے پاس چلا گیا ہے جو ضلعی انتظامیہ کو جواب دہ نہیں ہے اور سزا دینے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے جہاں سے آسانی کے ساتھ ضمانت ہو جاتی ہے۔ اس طرح عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کی وجہ سے ان کمیٹیوں کی اثر انگیزی محدود ہو گئی ہے۔
پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اشیائے خورد و نوش، خاص طور پر آٹے اور چینی کی کم یابی، ذخیرہ اندوزی کے رجحان میں اضافے اور قیمتوں پر کنٹرول میں انتظامیہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
عوامی مفاد کا ایک اور اہم معاملہ جس میں ضلعی انتظامیہ کا کردار انتہائی مؤثر اور فیصلہ کن ہوتا تھا، اس کا تعلق امن و امان کی بحالی اور کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنا تھا۔
کچھ عرصہ قبل راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد پل پر دھرنا دیا گیا تو پولیس اسے منتشر کرنے میں ناکام ہو گئی جس کے بعد وفاقی وزرا اور انتہائی اعلیٰ سطح کے دیگر عہدے دار متحرک ہوئے لیکن اس کے باوجود دھرنے کو منتشر کروانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھرنے کی قیادت کا مؤقف سخت ہوتا چلا گیا اور پھر یہ دھرنا اس وقت ختم کروایا جاسکا جب فوج متحرک ہوئی اور اس نے اپنی ضمانت پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور دھرنے کی قیادت کے درمیان معاہدہ کروایا جس کے نتیجے میں حکومت کی رٹ تحلیل ہو کر رہ گئی اور ایک وفاقی وزیر زاہد حامد کو مستعفی بھی ہونا پڑا۔
اس دھرنے میں عسکری اداروں کے عمل دخل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تبصرے اپنی اہمیت رکھتے ہیں اور ملک کے قومی و سیاسی معاملات سے متعلق ایک علیحدہ اور مکمل موضوع ہیں لیکن اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھنے والے بیوروکریٹس کا مؤقف ہے کہ اصلاحات سے قبل اس نوعیت کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا مشکل آج ہو چکا ہے۔
ماضی میں ایسے واقعات سے نمٹنے کی کم سے کم سطح سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھی اور زیادہ سے زیادہ ڈپٹی کمشنر۔ یہ لوگ موقع پر حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرتے اور اس پر عمل درآمد ہو جاتا۔ اس نظام کی اثر انگیزی کا راز یہ تھا کہ پولیس موقع پر موجود ضلعی انتظامیہ کے حکم کی پابند ہوتی تھی لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔
اب پولیس از خود کوئی فیصلہ کر کے اس پر عمل درآمد کر دیتی ہے۔ پولیس ایک طاقت تو ہے جو اپنے اختیار، تنظیمی قوت اور اسلحے کے استعمال سے کارروائی کر گزرتی ہے لیکن اس کے پس پشت وہ انتظامی تجربہ نہیں ہوتا جو عوام اور ہجوم کی نفسیات سے آگاہی کے باعث اس سے نمٹنے کی مؤثر طاقت رکھتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں پولیس کی طرف سے طاقت کا استعمال بڑھ چکا ہے جس کے نتیجے میں کئی بڑے حادثات بھی رونما ہو چکے ہیں جس کی ایک تکلیف دہ مثال لاہور میں سنہ 2014 میں پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین کے خلاف ماڈل ٹاؤن میں کارروائی کی صورت میں سامنے آئی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
بڑے واقعات کے مقابلے میں انفرادی نوعیت کے واقعات کے پس پشت بھی ایسی وجوہات ہی کارفرما ہیں۔ اسلام آباد میں 22 برس کے نوجوان اسامہ ندیم ستی اور فیصل آباد میں وقاص گجر کی ہلاکتوں کو بھی اس پس منظر سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
موجودہ صورت حال میں پولیس اور عوام براہ راست آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ انتظامی تجربہ رکھنے والے سینیئر بیورو کریٹس یقین رکھتے ہیں کہ اصلاحات سے قبل ضلعی انتظامیہ عوامی ہجوم اور پولیس کے درمیان مصالحت کنندہ کی حیثیت سے ’کُشن‘ کا کردار ادا کرتی تھی اور مؤثر اس لیے رہتی تھی کہ شہر کے تمام اہم افراد اور سیاسی و غیر سیاسی طبقات کا واسطہ مختلف چھوٹے بڑے کاموں اور مقدمات کی ضمانتوں کے سلسلے میں ان سے پڑتا رہتا تھا۔
اس کی وجہ سے یہ لوگ ضلعی انتظامیہ کا احترام کرتے اور جیسے ہی اس کے ذمہ داران کسی معاملے میں سامنے آتے، عام طور پر وہ مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہو جاتا۔
اصلاحات کے بعد ضلعی انتظامیہ کے عدالتی اختیارات جیسے ہی ختم ہوئے، اس کی اثر انگیزی محدود بلکہ حقیقی معنوں میں ختم ہو گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم نے فیض آباد دھرنے کے از خود نوٹس کیس کے فیصلے میں لکھا ہے کہ ان معاملات میں عسکری اداروں نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی۔
کسی عدالتی فیصلے میں فوج کے اس نوعیت کے کردار کی نشان دہی ایک منفرد واقعہ ہے لیکن تاریخ میں ایسی مداخلت کی روایت موجود ہے۔
ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے بارے میں گوہر ایوب نے لکھا ہے کہ یہ تحریک بے اندازہ مالی وسائل رکھتی تھی اور اسے یحییٰ خان کی سرپرستی حاصل تھی۔
بعض دیگر مصنفین نے بھی لکھا ہے کہ اس تحریک کو فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کی حمایت حاصل تھی جو ان ہنگاموں پر قابو پانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتے تھے۔
فیض آباد دھرنے سے نمٹنے کے سلسلے میں جنرل فیض حمید کا کردار ماضی کے اس کردار سے مختلف تھا۔ وہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان مصالحت کنندہ کی حیثیت سے سامنے آئے۔
اس قسم کے بحرانوں سے نمٹنے والے بیوروکریٹس کے مطابق فوج کے اس کردار کی گنجائش اصلاحات کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ اس سے قبل چونکہ ضلعی انتظامیہ ایسے مواقع پر پورے اختیارات کے ساتھ موجود ہوا کرتی تھی، اس لیے کسی دوسری طاقت کے اس طرح متحرک ہونے کی گنجائش بالکل نہیں تھی۔
پنجاب کے ایک سابق چیف سیکریٹری کہتے ہیں کہ جن دنوں بیوروکریسی میں اصلاحات اور ضلعی انتظامیہ سے عدالتی اختیارات واپس لینے کے منصوبے پر غور جاری تھا، اس دوران اُن کا امریکا جانا ہوا۔ وہاں ایک اجلاس میں ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے اُن سے سوال کیا کہ متبادل نظام وضع کیے بغیر ضلعی انتظامیہ کے اختیارات کی سلبی سے جو خلا پیدا ہو گا اور اس خلا کے نتیجے میں جو مسائل جنم لیں گے، کیا آپ لوگوں کو اس کا اندازہ ہے؟
’یہ وہی مسائل ہیں جو آج منھ پھاڑے ہمیں نگلنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔‘
سرد و گرم چشیدہ بیوروکریٹ نے دکھ کے ساتھ کہا۔
٭٭٭٭٭٭
یہ مضمون بی بی سی اردو پر شائع ہو چکا ہے
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55783744