وہ بھی سردیوں ہی کا موسم تھا لیکن ایسا لگتا ہے، کچھ زیادہ خوش گوارتھاکیوں کہ قلفی جما دینے والی طویل راتوں کو مختصر کرنے کے لیے چلغوزے دستیاب تھے، نیز گپ لڑانے کے لیے ارشد عاکف جیسے دوست۔یہ دوستی آج بھی اُن سہانے زمانوں کی یاد تازہ کرکے قلب و روح کو بے لوث محبت کی خوشبو سے بھر دیتی ہے۔اقبالؒ اسپین گئے تو الحمرا،مسجد قرطبہ اور ندی نالوں کے مناظر میں ایسے کھوئے کہ بے ساختہ کہہ اٹھے ؎
آب رواں کبیرتیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
ایسی کیفیات فقط سیر و سیاحت ہی سے تو پیدا نہیں ہوتیں، بعض ملاقاتیں اور ان میں ہونے والی باتیں بھی پیدا کر دیتی ہیں۔نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ارشد عاکف سے ملاقات بھی کچھ ایسی ہی کیفیت رکھتی ہے۔اس منڈلی کا تیسرا رکن بھی تھا، ارشاد محمود، ارشاد محمود تحقیق کا جویا تھا لیکن علم و فضل کے معاملات سے سیاست کو جدا نہیں سمجھتا تھا،شاید یہی سبب ہے کہ آج اس کا شمار آزاد کشمیر کی سیاست کے چند اہم لوگوں میں ہوتا ہے، ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں اہم ترین لوگوں میں ہونے لگے۔ ارشد عاکف کا معاملہ جد اتھا۔ سیاست سے دلچسپی ارشد کو بھی تھی لیکن اس حد تک کہ یہ بھی ایک لازمہئ حیات ہے لیکن ہمارا تعلق اس سے اتنا ہی ہے جتنا بھرے بازار سے گزر جانے والے کسی قناعت پسند مسافر کا۔ارشد کی یہی ادا دل کو بھاگئی اور سردیوں کی بے شمار اداس اور طویل راتیں ہم نے کچھ خواب دیکھتے ہوئے گزاریں، کچھ ایسے خواب جیسے اقبالؒ نے دیکھے ہوں گے یعنی دریائے کبیر کے آب رواں کو گواہ بنا کر ماضی و حال کو ایک ساتھ دیکھنے کی جستجو۔
براڈ شیٹ اور اُس کے عہدے دار موسوی کے انکشافات پے درپے سامنے آنے لگے تو ہمارے اسی دوست کے دل میں بھی ٹیس اٹھی اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں اشرافیہ کے دو سو افراد ہمیں احمق بنائے چلے جاتے ہیں، کیا اب وہ وقت آ نہیں گیا کہ کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور بات آج یا کل سے نہیں، جنرل مشرف سے شروع کی جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر ایک نعرہ مستانہ بلند کر کے فیصلہ سنا دیا جائے کہ بس، اب بہت ہو گیا، ہماری جان چھوڑ دو۔
ارشد عاکف کی بات دل کو لگتی ہے، میں اِس کا قائل بھی ہوجاتا، اگرایک کارٹون میری نگاہ سے نہ گزرتا۔ فرید سرور جعفری نفیس ذوق رکھنے والے اہل قلم ہیں۔ ہیں تو وہ ادبیات کے طالب علم ہیں لیکن کسی بھی ذمہ دار اور درد مندپاکستانی کی طرح سیاست سے بھی شغف رکھتے ہیں اور سیاسی معاملات پر لگی لپٹی رکھے بغیر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اِ ن کے نکتہ ئ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، وہ مختلف سیاسی واقعات کے تال میل سے جو تجزیہ کرتے ہیں، اُس میں بھی اختلاف کے پہلو تلاش کیے جاسکتے ہیں لیکن اِس ملک سے اُن کی محبت اور اخلاص پر حرف گیری ممکن نہیں۔ ارشد عاکف کی پوسٹ کے بعد میری نگاہ اِن ہی کی پوسٹ پر پڑی جو ایک کارٹون کی شکل میں تھی، اتفاق سے یہ تبصرہ بھی براڈ شیٹ سے اڑنے والی دھول پر ہی تھا۔یہ کارٹون چار سیاست دانوں پر مشتمل ہے جن کی ٹانگیں آپس میں بندھی ہوئی ہیں اور وہ ایک ہی منزل کی جانب گامزن ہیں، یہ منزل کیا ہے؟ بتانے کی ضرورت نہیں، اس کی وضاحت کارٹون کے کیپش سے ہوجاتی ہے جس میں لکھا ہے ”سیاسی بازی گر“۔شہباز گل، شبلی فراز یا مراد سعید سے پوچھئے تو اِن لوگوں کا اشارہ جس طرف ہوگا، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن کارٹونسٹ کا ذہن کسی اور جانب بہکتا دکھائی دیتاہے۔اس نے عمران خان کو مرکزی شخصیت بناکر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے کاندھوں پر ان کے بازو اس انداز میں رکھو دیے ہیں کہ تینوں ہم راز اور بے تکلف دوست دکھائی دیتے ہیں اور تینوں کی منزل ایک ہی ہے اور یہ وہی منزل ہے جس کے لیے عمران خان اور ان کے کھلاڑی اپنے سیاسی مخالفین یعنی نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مجرم قرار دیتے ہیں۔کارٹون میں چوتھی شکل اسفند یار ولی کی ہے لیکن انداز بتاتا ہے کہ کارٹونسٹ نے ان کی صورت میں باقی پوری سیاسی برادری کو سمو دینے کی کوشش کی ہے۔
براڈ شیٹ کے کاوے موسوی اچانک جس طرح منظر نامے میں داخل ہو ئے ہیں، خود یہ واقعہ اپنے اندر کئی سوالات رکھتا ہے لیکن اَن کے مختلف انٹرویو زکے مندرجات ان کی انٹری سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز ہیں۔ انھوں نے پہلے سے معتوب نواز شریف کو ہی نشانہ نہیں بنایا، سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف اور ان کی حکومت کی طرف بھی چھینٹے اڑائے ہیں۔ اس کے بعد موجودہ حکومت پر کمیشن طلبی کا الزام عاید کر کے اسے بھی ماضی کی حکومتوں اور سیاست دانوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔اب تازہ انکشاف انھوں نے لندن میں ہمارے دوست مقیم احمد خان کے ٹیبل ٹاک میں کیا ہے۔ا س انٹرویو میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں رشوت کی پیش کش کرنے والوں میں صرف نواز شریف کے نمائندے ہی شامل نہیں تھے بلکہ آصف علی زرداری نے بھی انھیں راجا نامی اپنے ایک نمائندے کے ذریعے رشوت کی پیش کش کی تھی۔بس، یہی کسر رہ گئی تھی،کاوے کے انکشافات میں ابھی تک آصف علی زرداری کا نام نہیں آیا تھا، اب منظر مکمل ہے۔
تازہ انکشاف کے بعد تکون مکمل ہو گئی ہے یعنی اس پراسرار شخص نے ماضی کے ”بدعنوان“ حکمرانوں کی صف میں موجودہ حکمرانوں کو بھی لا کھڑا کیا ہے جو اس سے حصہ طلب کرتے ہیں۔اس کا مطلب کیا ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ملک میں سیاسی پس منظر رکھنے والے لوگوں کا دامن صاف ہے اور نہ جنرل پرویز مشرف اور اِن جیسے عسکری پس منظر رکھنے والے لوگوں کا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ کوئی ذہن اس ملک کو ایسے انتشار کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہے جس کے نتیجے میں قوم کا اعتماد ہر ایک شخص یا گروہ سے اٹھ جائے۔ اب چاہے تو ارشد عاکف کی تجویز کے مطابق”بس اب بہت ہو گیا“ کہہ کر ہر ایک کو مسترد کر دیا جائے یاکھلی عدالت میں مقدمہ چلا کر ہر اس شخص کو بے نقاب کر کے اس کی گردن ناپ لی جائے جس نے ایک پائی کی بد دیانتی بھی کی ہے لیکن مجھے اندیشہ یہ ہے کہ وہ قوتیں جو اس ملک کو انتشار کا شکار کر کے اختلافات کی گہری دلدل میں دھکیل دینا چاہتی ہیں، کیا وہ اس عمل کو شفاف رہنے دیں گی یا اس عمل پر اثرا انداز ہو کر اسے مزید انتشار کا ذریعہ نہیں بنا دیں گی؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان کشمکش اور تلخی انتہا پرپہنچی ہوئی ہے لیکن تازہ واقعات بتاتے ہیں کہ اس تنازعے کو مزید گہرا کرنے اور مسائل کو مزید الجھانے کے مشن پر بھی کچھ قوتیں کاربند ہیں اور ان کا ہدف صرف سیاست دان نہیں۔ ایسے حالات میں ہمیں قومی اتحاد کی ضرورت ہے نہ کہ انتشار کی، اس لیے حکومت ہو یا حزب اختلاف اور سیاسی قوتیں ہوں یا غیر سیاسی، ان سب کے درمیان اتحاد کی ضرورت ہے اور یہ اتحاد موجودہ نیب مارکہ احتساب کے بجائے جنوبی افریقہ کے منڈیلابرانڈ حقیقت پسندی اور مفاہمت کے فارمولے میں ہی مضمر ہے، ہمارے اہل معاملہ اس پیغام کو جتنی جلد سمجھ لیں،ا تنا ہی بہتر ہے۔