کاوے موسوی کون ہے کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایسے ہی مشکل ہے جیسے اس سوال کا جواب کہ معین قریشی جیسا غیر ملکی پاکستان جیسے ملک کا وزیر اعظم کیسے بنا؟ وقت آنے پر ممکن ہے کہ اس شخص کے چہرے سے نقاب بھی اٹھ جائے اور اس بے چہرہ شخص کے چہرے سے بھی جس کے لیے یہ کام کرتا ہے، اس لیے مناسب ہو گا کہ اس کے حسب نسب کا پیچھا کرنے کے بجائے اس کی اڑائی ہوئی گرد میں چھپے مقاصد پر توجہ دی جائے۔
قوم ابھی اس فیصلے میں مصروف تھی کہ میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بدعنوان ہیں یا نہیں، کاوے صاحب نے بتا دیا ہے کہ نہ صرف وہ بدعنوان تھے بلکہ اسے چھپانے کے لیے مال بھی خرچتے ہیں، مثال کے طور پر اس نے خود کو پیش کیا کہ میاں صاحب نے اپنے ایک نمائندے کے ذریعے رشوت کی پیش کش کی پھر بتایا کہ صرف نواز شریف اور ان کی حکومت ہی بدعنوان نہ تھی ، موجودہ حکمراں بھی ایسے ہی ہیں کہ مال کی برآمدگی میں دلچسپی سے زیادہ اس کے لوگوں کو اپنے کمیشن کی فکر ہوتی ہے۔
کاوے صاحب کے ان انکشافات سے قبل بدعنوانی کا ذکر مکمل نہیں ہوتا تھا، اگر نواز شریف کے ساتھ زرداری صاحب کا نام نہ لیا جاتا، زرداری صاحب کا نام ابھی تک نہیں آیا تھا لیکن مقیم احمد خان کے ساتھ اپنے تازہ انٹرویو میں انھوں نے زرداری صاحب کو بھی لپیٹ لیا ہے اور ان پر بھی رشوت کی پیش کش کا الزام لگا دیا ہے۔
اب صورت یہ بنی کہ ماضی کے دونوں حکمرانوں کے ساتھ موجودہ حکمراں بھی بدعنوان قرار پاگئے، ان کے ساتھ ہی سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف بھی کیوں کہ کاوے ماضی میں جس پر بھی ہاتھ ڈالتا، ان کی حکومت اسے اپنے ساتھ ملا لیتی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں کوئی بھی قابل اعتماد نہیں، نہ فوجی اور نہ غیر فوجی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ کوئی طاقت ملک کو بے چینی اور افراتفری کی طرف لے جانا چاہتی ہے یعنی عوام ہر ایک پر لعنت بھیج کر مایوسی کے عالم میں کسی اور راستے پر جانکلیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا فایدہ کس کی جھولی میں گرے گا؟ ہمارے ارباب بست بست کشاد اس پیغام کو جتنی جلد سمجھ لیں، اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ پیغام ان کی سمجھ میں آ جائے تو وہ ملک کو اتحاد کی طرف لے جائیں۔