کیا حزب اختلاف کا اتحاد اختلافات کا شکار ہو کر کیا واقعی دم توڑ گیا؟ اگر سرکاری پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر فیصلہ کرنا ہے تو یہی سمجھئے لیکن سیاسی معاملات حساب کے سوال کی مانند دو جمع دو کی طرح نہیں ہوتے بلکہ تہہ در تہہ حقائق کی روشنی میں مرتب ہوتے ہیں۔
پی ڈی ایم نے استعفوں کی بات کہی تھی، اس کے جواب میں حکومت نے بھی کچھ اعلانات کیے جن میں ایک عرصے سے روکے ہوئے ضمنی انتخابات کے انعقاد کے علاوہ سینیٹ کے انتخابات وقت سے پہلے کرانے کے فیصلے شامل ہیں۔ حکومت کے اس پینترے کے بعد کیا لازم تھا کہ حزب اختلاف اپنی اسی حکمت عملی پر جمی رہتی؟ اگر ایسا ہوتا تو ثابت ہو جاتا کہ وہ سیاست سے نابلد ہے۔ حزب اختلاف کی حکمت عملی میں تبدیلی پر حکومت کی پریشانی اور تنقید قابل فہم ہے۔ حزب اختلاف انتخابی میدان کھلا چھوڑ کر خود پس منظر میں چلی جائے تو اس سے حکومت کی دلی مراد بر آئے گی، حزب اختلاف ایسا کیوں کرتی؟
اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت نے میدان خالی دیکھ کر میدان مارنے کا جو منصوبہ بنایا تھا، حزب اختلاف کی جوابی حکمتِ عملی نے اسے ناکام بنا دیا ہے تو حکومت ظاہر ہے کہ اسے تنقید کا نشانہ بنائے گی۔ یہ تنقید حکومت کا حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ صحافی حکومت کا لب و لہجہ اور اسی کے اٹھائے ہوئے سوالات اور دلائل کیوں استعمال کر رہے ہیں؟
اس کی دو تین وجوہات ہیں، پہلی اور بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کے بہت سے لوگ دراصل حکومت ہی کے ترجمان ہیں، لہٰذا جو کچھ حکومت کہتی ہے، وہ اسے دہرانا فرض سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ اور سیاسی حرکیات سے ناواقفیت کی وجہ سے ظاہری باتوں اور واقعات سے متاثر ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ ذہنی طور پر سیاسی عمل اور سیاست دانوں سے بدگمان ہیں، وہ اپنی اسی بدگمانی کی بنیاد پر فیصلے سناتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب تجزیے اور تبصرے خواہشات کے زیر اثر ظہور میں آتے ہیں، اس لیے حقائق سے دور ہی رہتے ہیں لہٰذا ذراسے حالات بدلتے ہی غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ حالیہ تبصروں کی قسمت میں بھی یہی کچھ لکھا ہے۔
سیاست کا کوئی طالب علم یہ دعویٰ کبھی نہیں کرے گا کہ پی ڈی ایم یا اس اتحاد کی کسی جماعت میں کوئی اختلاف نہیں، اگر کرے گا تو غلط کرے گا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں الگ الگ تاریخ اور علیحدہ علیحدہ مفادات رکھتی ہیں۔ اس لیے بدلے ہوئے حالات میں جب یہ اتحاد اپنی حکمت عملی پر غور کرنے کے لیے بیٹھے تو اس میں مختلف آرا سامنے آئیں گی اور اختلافات بھی ضرور سامنے آئیں گے، کیا یہ اختلافات اس اتحاد کے خاتمے کا مظہر ہیں؟ اتحادوں کی تاریخ ایسی ٹوٹ پھوٹ سے خالی نہیں لیکن موجودہ حالات میں ابھی تک ایسی کوئی علامت سامنے نہیں آئی جسے اتحاد کی ٹوٹ پھوٹ سے تعبیر کیا جاسکے۔
ماضی کے سیاسی اتحادوں اور موجودہ اتحاد میں ایک بنیادی فرق ہے اور اس اتحاد میں شامل ہر جماعت سمجھتی ہے کہ وہ جس سیاسی فکر پر عمل پیرا ہیں، اگر وہ اس مرحلے پر اتحاد سے ناتا توڑ کر اپنی راہیں جدا کرتی تو نتیجہ ان کی موت کی صورت میں برآمد ہو گا۔ علیحدہ راستہ اختیار کرنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ بدگمانی پیپلز پارٹی سے ہے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی ماضی کی بدمزگی کے واقعات اور ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کو بھی کسی ممکنہ انتشار کی بنیاد بتایا جاتا ہے، سیاسی عمل میں ایسے نا خوش گوار واقعات اہمیت رکھتے ہیں لیکن بالغ نظر سیاسی شخصیات جن کے سامنے بڑے مقاصد ہوں تو ماضی کی تلخیاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ پی ڈی ایم کے اتحاد کا تجربہ ہمیں یہی منظر دکھا رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد نے صرف اپنے مخالفین کو ہی بے نقاب نہیں کردیا، ہماری صحافی برادری کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں جو لوگ صحافت کے پیشے میں کچھ بیساکھیوں کے سہارے شامل ہوکر نام پیدا کر چکے ہیں، یہ امتحان ان کے اس نام نہاد کیرئیر کو لے بیٹھے گا۔