پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر تحقیق و ادب کے آدمی ہیں۔ یوں، دنیا کی چمک دمک کو چھوڑ کر کرم خوردہ کتابوں کو پسند کرنے والے لوگ ہوتے ہی مختلف ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کا معاملہ ان سے بھی جدا ہے۔ وہ سہج سہج کر چلنے اور بات کرنے کے عادی ہیں، یہ خوبی انھیں کچھ اور نمایاں کر دیتی ہے اور دیکھنے والا سوچتا ہے کہ خدایا یہ شخص ہے کیا؟ اس راز کے کھلنے میں شاید کچھ وقت لگ جاتا اگر ”’طلب کے لمحے“ سے واسطہ نہ پڑتا۔ یہ کتاب اگر چہ ان کے اوائل عمری کی ہے لیکن بھلا ہو علامہ عبد الستار عاصم کا جنھوں نے اسے ایک بار پھر اپنی روایت کے مطابق خوب اہتمام سے شائع کیا ہے، اس طرح ہمارے جیسے لوگ جو اس کتاب سے اب تک فیض یاب نہیں ہو پائے تھے، ان کے مستفیض ہونے کی صورت بھی پیدا ہو گئی۔
ہمارے اکابرین، سر سید احمد خان، قائد اعظم محمد علی جناح،علامہ اقبال، مولانا شبلی نعمانی، خواجہ الطاف حسین حالی اور بہت سے دوسرے جنھیں ہم بزرگوں کے طور پر جانتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ چمکتی ہوئی پیشانیوں اور جھریوں بھرے چہروں والے یہ بابے کبھی بچے بھی تھے اور ان لوگوں پر ایک وقت ایسا بھی گرز چکا ہے جب وہ بستہ گلے اور تختی بغل میں ڈال کر مدرسے جایا کرتے تھے اور عام بچوں کی طرح استاد کے قدموں میں بیٹھ کر علم کے موتی چنا کرتے تھے۔ اس کرہ ارض کی پیٹھ چلنے پھرنے اور سانس لینے والے عام انسانوں کی طرح آخر ان لوگوں میں کیا خاص بات تھی کہ وہ اوّل اپنے زمانے میں نمایاں ہوئے، اس بعد کچھ ایسا کر گزرے کہ دہائیاں اور صدیاں بیت جانے کے باوجود دنیا انھیں یاد کرتی ہے اور جب یاد کرتی ہے تو ادب سے آنکھیں جھکا لیتی ہے۔ بس، یہی وہ راز ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں آشکار کیا ہے۔
وہ چیز جو ان عظیم لوگوں کو عام آدمی سے جدا کرتی کرتی ہے، وہ ہے طلب علم کا ذوق۔ یہ بات چار الفاظ گو اس کتاب کی روح بیان کر دیتے ہیں لیکن بات اتنی سادہ نہیں،اس کتاب کے ہر کردار کا ذوق طلب اپنا اور اس راستے میں جدوجہد جدا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان ولولہ انگیز کہانیوں کو کچھ ایسے اسلوب میں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
یہ کہانیاں میں نے پڑھیں تو مجھے ایک اور شخص کی یاد آئی جس کے طلب کے علم کا بھی اپنا انداز تھا۔ وہ شخص ابھی بچہ ہی تھا کہ دیہی روایت کے مطابق اسے گھرسے دور ایک دائی کے پاس بھیج دیا گیا جہاں شتر بانوں کے بچوں کے ساتھ گدانوں میں وہ پلا بڑھا۔ اسی خاک نشینی میں اسے دنیا کو جاننے اور سمجھنے کا ذوق پیدا ہوا جس نے اسے مطالعے کی راہ پر ڈال دیا، دنیا اس شخص کوشیر باز خان مزاری کے نام سے جانتی ہے۔کتابوں کی نمائش کسی ہوٹل میں ہوتی، آرٹس کونسل میں یا کہیں بھی، مزاری صاحب دنیا کی ہر مصروفیت سے ناتا توڑ کر وہاں پہنچ جاتے۔ نہایت انہماک سے کتابیں دیکھتے جاتے، جو کتاب پسند آجاتی، اس کی طرف اشارہ کر تے اوردیرینہ خادم ایوب جو ان کے پیچھے کھڑا ہوتا، لپک کر کتاب اٹھاتا اور ٹرالی میں ڈال لیتا، یوں ایک ایک کر کے کتابوں کا ڈھیر سمیٹے یہ لوگ وہاں سے نکلتے۔
ایک بار جب میں ان کی عظیم الشان لائبریری میں بیٹھا، انٹرویو کے لیے سوال موزوں کر رہا تھا، میں نے ان سے پوچھا، مزاری صاحب، ان ہزاروں کتابوں میں کچھ ایسی کتابیں بھی ہوں گی جو آپ کو بہت پسند ہوں گی، مجھے بتائیے کہ وہ کس قسم کی کتابیں ہیں جو آپ کے دل کو بہت لبھاتی ہیں؟ مزاری صاحب کی عادت عام سیاست دانوں سے بہت مختلف تھی، ایسا نہیں تھا کہ جیسے ہی بات کرنے کاانھیں موقع ملتا، وہ بے تکان بولنا شروع کر دیتے، اطمینان سے بات سنتے، کہنے والے کی بات ختم ہوتے ہوتے وہ اثبات میں سر کواوپر سے نیچے حرکت دیتے، اس لمحے محفل میں زندگی بکھیر دینے والی مسکراہٹ ان چہرے پر نمودار ہوتی پھر ایک نامعلوم سے وقفے کے بعد وہ بات شروع کرتے۔ میرے اس سوال پر بھی یہی کچھ ہوا، سوائے اس کے کہ انھوں نے مسکراتے ہوئے بائیں جانب اشارہ کیا اور کہا”آپ بیتی فاروق، آپ بیتی۔ ایک اچھی آپ بیتی پڑھتے ہوئے انسان اس میں کھو کر رہ جاتا ہے“۔اتنا کہتے ہوئے ان کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوئی، پھر اس کے بعد انھوں نے کچھ شخصیات کے نام لیے جن کی آپ بیتیوں نے انھیں متاثر کیا، بینجمن فرینکلن، مارک ٹوئین اور جانے کون کون۔ وہ اپنی عادت کے برخلاف دیر تک نام لیتے چلے گئے۔ محسوس ہوا کہ جیسے وہ کتاب پڑھتے ہوئے ہی کھو نہیں جاتے، کتاب کا تذکرہ بھی انھیں مسحور کر تا ہے۔ مزاری صاحب نے اپنی بات ختم کی اور ایک بار پھر مسکرائے۔ میں پوچھا کہ یہ تو آپ بیتیاں ہوئیں، یہ فرمائیے کہ وہ کون خوش نصیب ہے جو ان کتابوں کے صفحات سے نکلا اور سیدھا آپ کے دل میں جا بیٹھا؟ یہ سوال بھی انھوں نے اپنی روایت کے مطابق سنا لیکن اس بار مسکراہٹ کی جگہ ایک گمبھیر سنجیدگی نے لے لی جیسے میدان جنگ میں اترتے ہوئے کسی پرعزم جرنیل کے چہرے پر ہونی چاہئے، پھر اسی گمبھیرتا کے ساتھ انھوں نے کہا: ”امام شامل“۔چائے کی پیالی میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچی۔ نقش بندی سلسلے کے تیسرے امام، قفقاز میں جنھوں نے روسی استعمار کے کے خلاف ولولہ انگیز جدوجہد کی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب داغستان کے ہر حصے سے انھوں نے روسیوں کو نکال باہر کیا۔
خان عبد الولی خان اور ان کے ساتھی جب جیل کی کا کوٹھڑیوں میں بند کر دیے گئے اور ملک دشمن قرار دے کر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی، یہ مزاری صاحب ہی تھے جنھوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے جمہوریت کا پرچم اٹھا کر جنگ کا آغاز کیا، مزاری صاحب اگر امام شامل کو پسند کرتے ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ وہ خود بھی تو اُن سے مختلف نہیں۔
”تاریخ کہتی ہے کہ وہ قفقاز کے ٹیپو سلطان تھے“۔ میرے خیالات کے تانے بانے میں مزاری صاحب کا یہ جملہ کسی مقدس خیال کی طرح اترا۔
”دیکھئے، فاروق! ہمارا قومی سفر آج جس بھنور میں آ پھنسا ہے، اس سے نکلنے کے لیے بھی ہمیں ٹیپو اور شامل جیسے شیروں کی ضرورت ہے“۔مزاری صاحب کا یہ جملہ سن کر میں کچھ الجھ سا گیا۔ کہنے لگے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہر عہد کی لڑائی کاانداز اپنا ہوتا ہے، اُن بزرگوں کو تلوار اٹھانی پڑی ہوگی لیکن محمد علی جناحؒ، ہمارے قائد اعظم، ان کی تلوار قانون تھا اور سیاست، ہمارے ہتھیار بھی آج یہی ہوں گے لیکن ارادہ ویسا ہی درکار ہے جیسے امام شامل اور ٹیپو کا تھا کیوں کہ ہمارا عہد کچھ زیادہ ہی پیچیدہ اور مشکل ہوگیاہے اور ہمارا واسطہ بھی بدقسمتی سے کچھ بڑے جابروں سے پڑگیا ہے جن سے لڑائی ذرا طویل ہی لڑنی پڑے گی۔
یہ تھے ہمارے مزاری صاحب، اُس زمانے میں جب غلام اسحق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کا خاتمہ کیا، انھیں پیش ہوئی لیکن وہ طرح دے گئے۔ اس کے بعد امریکی سفیر ان سے ملنے آپہنچے، کہا کہ ہم آپ کو اس منصب پر دیکھنا چاہتے ہیں جو آپ پر جچتاہے۔ ڈپلومیٹک گفتگو کوئی مزاری صاحب سے سیکھے، اس مرحلے پر بھی انھوں نے یہ آداب ملحوظ رکھے لیکن جو بات کہی، اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ جناب، میں آپ کے کام کا نہیں۔ مزاری صاحب سے مایوسی کے بعد ہی یہ منصب ان کے بڑے بھائی میر بلخ شیر مزاری کے حصے میں آیا۔
1999ء میں جنرل مشرف کی فوجی کارروائی سے قبل عمران خان بھی ڈاکٹر عارف علوی اور بعض دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ان کے ہاں پہنچے اور تعاون کے طلب گار ہوئے۔ مزاری صاحب کا کہنا تھا کہ دو تہائی اکثریت والی حکومت کے خلاف کسی کارروائی کی وہ کبھی حمایت نہ کریں گے۔پھر کہا کہ ایک بار مجھ سے ایسی غلطی ہو چکی، آئندہ نہیں ہو سکتی، ان کا اشارہ 1977ء کے اس واقعے کی طرف تھا جب ان کا جھکاؤ بھٹو صاحب سے مذاکرات کی کامیابی کے خواہش مندوں کے بجائے اصغر خان کی طرف تھا۔ اُس بحران کے وہ واحد کردار تھے جنھوں نے اپنی اس غلطی کو یوں علی الاعلان تسلیم کیا۔سچ تو یہ ہے مزاری صاحب ہماری سیاست کاایک ایسا کردار تھے جن کی ضرورت ہم ہر زمانے میں محسوس کریں گے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر اپنی کتاب کا اگلا یڈیشن مرتب کریں تو اس میں مزاری صاحب کی کہانی بھی شامل کریں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ پائے کہ ہمارا عہد بڑے لوگوں سے خالی رہا ہے۔