• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال فاروق عادل کے سفر نامے

کراچی منی بس سے استنبول میٹرو تک

ایک بار دیکھا، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے، میٹرو اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی داستان کا یہ سوال کانوں میں گونجا، اس کے بعد جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے، حیرت میں ڈوبتے گئے۔ فاروق عادل کا سفر ترکی

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
November 23, 2020
in فاروق عادل کے سفر نامے
0
کراچی منی بس سے استنبول میٹرو تک
146
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

ایک بجے کے لب بھگ کلاسیں ختم ہو جاتیں تو کچھ لوگ سنٹرل مسجد کا رخ کرتے اور کچھ کیفے ٹیریا کا۔ یہ دونوں مقامات کشش رکھتے تھے۔ مسجد میں ظہر کی چار رکعتوں کے بعد طلبہ کی ٹولیاں صحن، برآمدے اور دروازوں کے کھلے چبوتروں پر دھرنا دے کر بیٹھیں اور باتوں کے وہ فوارے چھوٹتے کہ سننے دیکھنے والے سب بھیگ کے اٹھتے۔

کچھ ایسے ہی مناظر کیفے ٹیریا کے ہوتے۔آلو کے کٹلٹ اور انڈا گھوٹالے کے ساتھ دو لقمے ٹھنڈی روٹی کے۔ مسجد میں تو صرف جمعیت والے ہی ہوتے لیکن کیفے ٹیریا میں محمود و ایاز سب ایک ہو جاتے اور اکٹھے بیٹھ کر غیبت سیشن چلاتے۔کون فرزند جامعہ تھا جس کا دل ان سرگرمیوں میں نہ لگتا لیکن وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں، سفید پوش گھرانوں کے بچوں کو اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے دوگنا محنت کرنی پڑتی ہے، کلاسیں ختم ہوتے ہی وقت پر دفتر پہنچنے کے لیے میں منی بس کی طرف بھاگتا۔ دل اگرچہ کیفے ٹیریا لپکتا لیکن قدم جی تھری کی طرف بڑھتے۔

ڈاکٹر خلیل طوقار

ڈبلیو الیون کی طرح جی تھری بھی اس زمانے میں کراچی کی مشہور و معروف منی بس تھی جو شہر کے ایک کونے یعنی ملیر چھاونی سے چلتی تو شہر کے بیچوں بیچ سے گزرتی ہوئی ساحل کے کنارے آباد ایک کچی بستی سعید آباد پہنچ کر دم لیتی، وہی سعید آباد جس سے چند قدم آگے بلوچستان کی حدود شروع ہو تی ہیں۔

لمبا روٹ اور بہت سی سواریاں، کراچی کا ہر ٹرانسپورٹر یہی سوچ کر رروٹ لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ قباحتیں بھی وابستہ ہیں لیکن ان قباحتوں کا تعلق منی بس والوں سے نہیں، اس میں سفر کرنے والوں سے ہے۔ جلدی نہ مچاؤ۔ لباس کی پروا نہ کرواور ڈرائیور گاڑی تیز چلائے خواہ آہستہ صبر شکر کر کے بیٹھے رہو۔گاڑی کے آہستہ اور تیز چلنے کا تعلق کسی قانون یا ضابطے سے نہیں بلکہ سواری کی تعداد سے ہوتا۔

ADVERTISEMENT

یہ بسیں جب اپنی کسی ٹھکانے سے روانہ ہوتی ہیں تو ان میں دو چار سواریاں ہوتی ہیں، اس لیے بس جوں کی رفتار سے چلتی، آگے بڑھتے بڑھتے جب نشستیں پُر ہو جاتیں، اس کے بعد نشستوں کے درمیان دو فٹ کی راہداری میں بھی کمر سے کمر ملاکر پچیس تیس افراد کھڑے ہوجاتے اور پسینے کی بدبو سے سانس لینا محال ہو جاتا تو اس کی رفتار بھی بڑھ جاتی، دائیں بائیں سے گزرنے والی بس سے مقابلہ بھی ہوتا،ملکہ ترنم کے”کجھ گھس گئی اے، کجھ پاٹ گئی اے“ جیسے دلوں میں ان جانی سی امنگ بھر دینے والے گانے بھی بلند آو ازمیں سننے کو ملتے اور اچانک کسی پیدل چلتے مسافر یاپہلو سے گزرتی کسی گاڑی کو بچانے کی کوشش میں چیخیں مارتی ہوئی اس کی بریکوں کی آواز بھی دور تک سنائی دیتی، اگر چہ ایسی بریک  کا فائدہ خال ہی دیکھنے میں آتا۔بس، یوں سمجھئے کہ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے سفر میں مسافر کے بلڈ پریشر کا درجہ نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے مسلسل سفر میں رہتا اور وہ اپنے ورثا کو پہنچنے والے کسی اچانک صدمے کے خوف سے حسب عقیدہ آیت الکرسی یا ناد علی کے ورد میں مصروف رہتا۔ 

وہ کوئی جبری قسم کی چھٹیاں تھیں جن میں فرزندان جامعہ سے ہاسٹل تک خالی کرا لیے گئے، اس لیے مجبوراً گلشن اقبال میں ایک ایسے دوست کے ہاں پناہ لینی پڑی، سرکلر ٹرین کا گیلانی اسٹیشن جس کے گھرکے پہلو میں تھا۔دفتر جانے کا وقت ہوا تو میں تھیلا گلے میں لٹکا کر اسٹیشن جا پہنچا، ٹکٹ لیا اور انگریزوں کے زمانے کی بوگی میں آڑی بچھی ہوئی کئی کئی گز طویل چوبی نشستوں میں ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے مسافرو ں کو دیکھتا ہوا جی تھری کی طرح ہی پورے شہر سے گزر کر سٹی اسٹیشن کے اس بچھڑے ہوئے پلیٹ فارم پر جا پہنچا جو خصوصی طور پر سرکلر گاڑیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔

روٹ اجنبی تھا، فاصلہ زیادہ تھا، وقت بھی معمول سے کچھ زیادہ ہی لگا لیکن مزہ آیا، بس، اسی مزے کی کشش میں اگلے روز بھی اسٹیشن پر جا پہنچا۔ٹکٹ بابو نے کہا کہ ٹکٹ تو میں تمھیں دے دیتا ہوں لیکن ٹرین ابھی دوسری طرف سے بھی نہیں آئی، وہ جب کبھی ایک طرف سے آئے گی، دوسری طرف پہنچے گی پھر اُس طرف سے روانہ ہوگی اور یہاں پہنچے گی تو یہ ٹکٹ کار آمد ہوگا۔ میں نے دونوں طرف کے فاصلے اور اس میں لگنے والے وقت کا اندازہ لگایا اور اس میں اُس نامعلوم وقت کو جوڑا جب یہ ٹرین سٹی اسٹیشن سے امکانی طور پر چلتی۔ اندازہ ہوا کہ اتنی دیر میں تو چھٹی کا وقت ہو جائے گا۔ میں نے ایک تشویش آمیز نگاہ ٹکٹ بابو پر ڈالی اورسوچا کہ اس سے تو جی تھری ہی بھلی۔بس، کوئی یہی زمانہ تھا فیصلہ سازوں نے سرکلر ٹرین کو مستقل طور پر ہی بند کردیا۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

اتنے برسوں اور اتنے زمانوں کے بعد اُس ٹکٹ بابو کا نیند میں ڈوبا ہوا چہرہ میری نگاہ کے سامنے آگیا جب ادبیات فیکلٹی سے نکل کر صدیوں کی خوشبو دیتی ہوئی طویل راہ داری سے گزر کر ہم باہر نکلے تو ڈاکٹرخلیل طوقار پلٹ کر کھڑے ہو گئے اور مسکراتے ہوئے پوچھا، فاروق بھائی، کہئے، میٹرو سے جانا ہے یا فیری سے؟ہمیں ایک بر اعظم سے دوسرے براعظم کی طرف سفر کرنا تھا یعنی یوروپی استنبول سے ایشیائی استنبول کی طرف۔ شہر والوں کو باسفورس کے پانیوں پر تیرنے کی آرزو ہو تو فیری کا رخ کرتے ہیں اور ان ہی پانیوں کے پیٹ سے گزرنے کو دل چاہے تو میٹرومیں بیٹھتے ہیں۔ کئی برس پہلے نیو یارک کی زیر زمین سب وے کے سفر کا لطف میں بہت اٹھا چکا تھا لیکن دریائے ہڈسن کے نیچے سے گزرنے کی حسرت باقی تھی، میں نے میٹرو کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

کچھ دیر میں ہم جانے کتنی ہی سیڑھیاں نیچے اتر کر میٹرو اسٹیشن میں تھے۔ مجھے حاتم طائی یاد آگئے۔ حُسن آرا  نے ایک سوال کا راز پوچھا تھا:

”ایک بار دیکھا، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے“۔

حاتم طائی یہ معمہ حل کر نے کے لیے ایک دریا کے کنارے پہنچے  اورحلق تر کرنے کے لیے اس میں ہاتھ اس میں ڈالا تو کوئی ان ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لے اسے پاتال میں لے اترا جہاں ایک اور ہی دنیا آباد تھی۔ ڈاکٹر صاحب مجھے بھی ایک ایسی ہی دنیا میں لے آئے تھے۔

سیڑھیوں کے اختتام پر ایک بہت بڑا گول ہال، ایک ہی وقت میں جس سے بلا مبالغہ ہزاروں افراد گزر سکیں۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تاکہ اپنے ریلوے اسٹیشنوں کی طرح اس کی اونچی دیواروں پربال کھولے روتی ہوئی اداسی کی ایک جھلک دیکھ سکوں لیکن مایوسی ہوئی کہ یہ دیواریں تو کسی میوزیم کی گیلری کی طرح عثمانی عہدکی چمکتی ہوئی مغل منی ایچر طرز کی توجہ جذب کرلینے والی تصویروں اور قرآنی خطاطی سے دعوت نظارا دیتی تھیں۔

آگے بڑھ کرگیلری کئی راستوں میں تقسیم ہوگئی۔ مسافر آتے اور گنگناتے ہوئے ناک کی سیدھ اپنے اپنے پلیٹ فارم کی طرف بڑھ جاتے۔ میٹرو پکڑنے کے لیے نہ کوئی تیزی اور نہ بدحواسی۔ کچھ دیر میں ٹرین پہنچ گئی۔ دروازے کی ایک جانب سے مسافر اترنے لگے اور دوسری طرف سے چڑھنے لگے جو سوار ہونے کے لیے مخصوص نشانوں پر نہایت اطمنا ن سے قطار میں کھڑے تھے۔میری نگاہوں میں اپنی جی تھری گھوم گئی نیز کراچی سرکلر ٹرین جن میں جگہ پانے کے لیے کرتے پھٹ جایا کرتے۔

(جاری ہے)۔

Tags: استنبول میٹروجمعیتڈاکٹر خلیل طوقارسٹی اسٹیشن کراچیکراچی سرکلر ریلوےکراچی منی بس
Previous Post

نواز شریف کی مزاحمت کا منبع بیگم شمیم اختر

Next Post

آج چاکلیٹی ہیرو کی برسی ہے

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
آج چاکلیٹی ہیرو کی برسی ہے

آج چاکلیٹی ہیرو کی برسی ہے

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

محشر خیال

خیبر پختونخوا
محشر خیال

خیبر پختونخوا بجٹ میں کوئی میگا پروجیکٹ کیوں نہیں؟

عامر لیاقت حسین
فاروق عادل کے خاکے

عامر لیاقت ایسے کیوں تھے؟

لوڈ شیڈنگ
محشر خیال

لوڈ شیڈنگ سے فوری نجات کی ایک قابل عمل تجویز

پاکستان
محشر خیال

پاکستان کا دارالحکومت پاکستان سے باہر منتقل کرنے کی سازش

تبادلہ خیال

نشہ
تبادلہ خیال

بلوچستان میں نشے کی تباہ کاری

کشمیر
تبادلہ خیال

کشمیر میں بھارت کے انسانیت کشی اور ڈرامہ کرفیو

پنشنرز
تبادلہ خیال

پنشنرز کی دہائیوں طویل خدمات کا صلہ کیا ملا؟

عمران خان
تبادلہ خیال

حکیم سعید ، ڈاکٹر اسرار اور عمران خان

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.