علامہ خادم رضوی رخصت ہوئے اور ان کے عقیدت مندوں نے انھیں بڑے پیار اور عقیدت کے ساتھ رخصت کیا۔ ان کی نماز جنازہ پر اکٹھے ہونے والے عظیم اجتماع کو تادیر یاد رکھا جائے گا اور اس کی مثالیں دی جاتی رہیں گے۔
اس جنازے نے ثابت کیا کہ مرحوم محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو پرچم اٹھا کر نکلے تھے، اپنی تمام تر تلخ بیانی، تلخ روی اور تند مزاجی اور دینی رویے کی شدت کے باوجود لوگوں نے ان پر اعتماد کیا، اس دار فانی سے ان کی رخصتی پر صرف ان کے عقیدت مند ہی دل گرفتہ نہیں ہوئے بلکہ ان سے اختلاف رکھنے والے بھی دکھی دکھائی دیے۔
اس تعلق خاطر اور غم کا صرف ایک ہی عنوان ہے، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ خادم رضوی کی شخصیت جیسی بھی تھی اور معاشرے کے اتحاد و یک جہتی اور روا داری کے ضمن میں ان کے خاص انداز فکر اور طرز عمل کو لوگوں نے فراموش کر کے ان کے عشق کو اولیت دے دی۔
اس واقعہ سے پاکستانی عوام کا یہ جذبہ ان لوگوں کی سمجھ میں آ جانا چاہیے جو شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے متعلقات کے ضمن میں بعض اوقات الٹی سیدھی درفنطیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس واقعے کا یہ ایک مثبت پیغام ہے جس کی قدر کی جانی چاہئے۔
یہ واقعہ جذبہ اسلام، ریاست پاکستان اور اخلاقی معیارات کے بارے میں بھی ہمارے لیے غور و فکر کے کچھ پہلو نمایاں کرتا ہے۔ اگر اس ملک میں اسلامی نظریے کو غالب کرنا ہے اور ریاست کی رٹ کو یقینی بنانا ہے تو ان پہلوؤں پر سنجیدہ غور و خوض ناگزیر ہے۔
ہمارے ہاں گزشتہ کچھ عرصے سے غیرت دین کے نام پر ریاست کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے یا ریاستی اآئین و قوانین کی پابندی کو غیرت دینی کے منافی قرار دے کر ریاست کی اہمیت کم کی جاتی رہی ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے ریاست پس منظر میں چلی جاتی ہے اور چند افراد کا مؤقف اس پر غالب آ جاتا ہے حالانکہ دین کی روح نظم و ضبط اور قانون کی حکمرانی پر زور دیتی ہے۔
جوش و جذبے کے ان واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ ہماری رائے عامہ کو یہ بنیادی معاملہ سمجھانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام خالی خالی بیان بازی سے ہونے والا نہیں، اس کے لیے تحریک چلانے اور اس میں سماج کے تمام طبقات کی شمولیت کی ضرورت ہے، ورنہ ایک طرف یہ طرز عمل اور دوسری طرف معاشرے میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے پیغام پاکستان جیسی دستاویزات کی حیثیت کاغذ کے ایک بے معنی ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہے گی۔