شبر زیدی اور سجاد مصطفیٰ باجوہ نے حکومت یا بالفاظ دیگر عمران خان پر نہایت سنگین الزامات عاید کر دیے ہیں۔
ایف بی آر ایک ازاد ریاستی ادارہ ہے جو اپنی ذمے داریوں کی انجام دہی میں آزاد ہے اور حکومت یا کوئی سرکاری شخصیت اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ ایک طرف یہ قانونی پوزیشن ہے اور دوسری جانب خود عمران خان کے انتخاب شبر زیدی کاانکشاف ہے کہ ان سے کہا گیا کہ فلاں فلاں سے تعرض نہ کیا جائے کیوں کہ وہ انھیں یا ان کی جماعت جو فنڈ فراہم کرتا ہے۔
حکومت اور عمران خان پر اس نوعیت کا الزام حزب اختلاف یا عمران کے مخالفین کی طرف سے عاید کیا گیا ہوتا تو اس کی نوعیت کچھ اور ہوتی لیکن یہ انکشاف ایک ایسی شخصیت کی طرف سے عاید کیا گیا ہے جو خود عمران خان کا انتخاب تھی۔ یہ صاحب اگر کہتے ہیں کہ انھیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا گیا اور ٹیکس نادہندگان سے اس لیے رعایت برتنے پر مجبور کیا گیا کہ وہ حکمرانوں کے فنانسر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات ماضی کے مقابلے میں زیادہ سنگین ہیں۔
کچھ ایسی نوعیت ہی ایف آئی اے کے سابق اہل کار سجاد مصطفیٰ باجوہ کے الزامات کی ہے۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت کے بعض لوگ شوگر مافیا کو چار سو ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر مرزا نے سجاد باجوہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انھیں احمقانہ قرار دیا ہے۔ ان کی تردید اپنی جگہ وزن رکھتی ہے لیکن موجودہ صورت حال میں یہ کافی نہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ مسٹر باجوہ پر الزام ہے کہ وہ شوگر مافیا، خاص طور پر کابینہ کے رکن خسرو بختیار کے گروپ کو حساس معلومات فراہم کرنے میں ملوث رہے ہیں۔
سجاد باجوہ پر یہ الزام سنگین نوعیت کا ضرور ہے لیکن ان کی برطرفی کے بعد اگر خسرو بختیار اپنی جگہ موجود ہیں تو ان پر الزام کمزور ہو جاتا ہے۔
ہمیں یہاں مسٹر باجوہ کی صفائی پیش نہیں کرنی، صرف یہ عرض کرنا ہے کہ صورت حال اتنی پیچیدہ ہو چکی ہے کہ حکومت کو فوری طور پر ان الزامات کی تحقیقات کا انتظام کرنا چاہئے۔
شبر زیدی اور مسٹر باجوہ جیسے الزامات اگر ماضی کے حکمرانوں کے خلاف آئے ہوتے تو آج کے حکمران ان کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کی اپوزیشن کو ایسا طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے صرف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
اس سے بھی زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ موجودہ حکمران اپنے آپ کو خود ہی عدالت کے سامنے پیش کر دیں تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع ہی نہ ملے کہ احتساب کے بیانئے پر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والوں کے معاملات ماضی والوں سے بھی زیادہ خراب ہیں۔
پس تحریر:
اس تجزیے کی اشاعت کے بعد شبر زیدی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے انکشافات درست نہیں۔ یہ انکشاف دراصل مولانا نہیں عارف حمید بھٹی نے کیے تھے۔ شبر زیدی کی تردید نے مزید پیچیدگی پیدا کردی ہے، اس کے بعد عدالتی تحقیقات زیادہ ضروری ہو گئی ہیں۔