گلگت بلتستان کے انتخابات ہو چکے، نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے لیکن نتائج کیا ہوں گے؟ یہ کچھ ایسا راز نہیں۔ گزشتہ الیکشن ہوئے تو اسلام آباد میں نواز لیگ کی حکومت تھی، لہٰذا یہاں بھی اسی کی حکومت بنی۔ اس بار بھی یہی روایت برقرار رہے گی، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔
گلگت بلتستان میں کس کی حکومت بنتی ہے، یہ سوال اہم نہیں،اہم سوال یہ ہے کہ یہ انتخاب مسئلہ کشمیر پر کس طرح اثر انداز ہو گا۔ اس کاسبب یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا خطہ بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ اس لیے یہاں جو تبدیلی بھی رونما ہوگی، وہ مسئلہ کشمیر پر کسی نہ کسی طرح ضرور اثر انداز ہوگی۔
گلگت بلتستان کے عوام کے آئینی حقوق اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے ایک طویل عرصے سے آواز بلند کی جاتی رہی ہے۔ یہاں کے عوام کا یہ ایک فطری اور جائز مطالبہ ہے کیونکہ کسی سرزمین کو بے آئین رکھا جاسکتا ہے نہ اور وہاں رہنے والوں کو شہری حقوق سے محروم رکھا جاسکتا ہے لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ گزشتہ تقریباً پون صدی سے یہ علاقہ اپنے جائز حقوق سے محروم چلا آ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں بعض منفی تحریکیں بھی ابھریں جن کی آڑ میں ہمارے غیر متنازع دشمن یعنی بھارت نے فایدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی۔
موجودہ حکومت نے اس علاقے کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کے اس اعلان کو مقبولیت حاصل ہوئی اور عوام میں اس سلسلے میں جوش و خروش دیکھا گیا۔
گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق ملیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ یہ ہمارے دل کی آواز ہے لیکن گزشتہ اگست میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو جابرانہ تبدیلیاں کی ہیں،ان کے پس منظر میں حالات میں جوہری تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے قائدین کا خیال ہے کہ اگر اس مرحلے گلگت بلتستان میں کوئی آئینی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی اور اقوام متحدہ میں ہمارے مؤقف کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے مقابلے میں گلگت بلتستان کے لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر کی وجہ سے ہم لوگ جو گزشتہ پون صدی سے متاثر ہو رہے ہیں، اس کا کیا جواز ہے؟
یہ دونوں مؤقف اپنی اپنی جگہ مضبوط ہیں اور ان میں سے کسی ایک وجہ سے بھی کسی فریق کو نقصان پہنچے، یہ قابل قبول نہیں۔
اس اصولی مؤقف کے باوجود اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی قوتیں یہ طے کر چکی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے واقعات کے بعد ہمارے یہاں اس قسم کا کوئی قدم اٹھا کر دشمن کے اقدامات کو جواز دینے کا انتظام کر دیا جائے۔
ایسی باتوں میں حقیقت کتنی ہے؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کے جواب میں کمزور ردعمل نے عوام میں مایوسی پیدا کی ہے۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بھارت کے جابرانہ اقدامات کے خلاف ہر جمعہ پوری قوم سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا کرے گی، اگر عملاً اس کی کوئی افادیت نہ تھی لیکن اس کی علامتی حیثیت بہرحال تھی۔ اب یہ علامتی احتجاج ختم ہو چکا ہے۔ اس طرح کے حالات میں شکوک وشبہات کی گنجائش میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق دیتے ہوئے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس سے مسئلہ کشمیر کو اگر کوئی فایدہ نہیں پہنچتا تو نقصان بھی نہ پہنچے۔