اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن یہ اچکزئی صاحب کیا فرما رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ لنگوا فرانکا ہے یعنی رابطے کی زبان ہے، بین الاقوامی زبان ہے۔ بس، اسی بات پر ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ بھی نہ ختم ہونے والا۔
اردو کے بارے میں ایک جملہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہماری زبان نہیں۔ اُردو سے لا تعلقی کا مظاہرہ کوئی بھی کرے، یہ افسوس کی بات ہے لیکن افسوس کی اس کیفیت کے باوجود تھوڑی توجہ ان کی بات پر بھی دینی چاہئے۔
ان کی کوئٹہ کی تقریر یہ موقع فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے تفصیل کے ساتھ مثالیں دے کر کہا کہ بلوچستان میں رہنے کے باوجود وہ بلوچی سمجھتے ہیں اور نہ براہوی، یہی معاملہ ان کے نزدیک دیگر علاقائی زبانیں بولنے والوں کا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کو چوں کہ ہر ایک نہیں سمجھتا، لہٰذا اس خلا کو اردو پر کردیتی ہے، گویا اردو رابطے کی زبان ہے۔
ان کی بات کا ایک پہلو یہ ہے لیکن ایک پہلو اور بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئین کا احترام کیا جائے اور اس کے ساتھ ہماری علاقائی زبانوں کا بھی کیوں کہ یہ ہماری زبانیں ہیں۔ کسی وجہ سے ان کی اہمیت میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔
علاقائی زبانوں کے بارے میں ہمارے ہاں روائتی طور پر حساسیت پائی ہے جس کے تاریخی اسباب ہیں۔ اس پس منظر میں ہمارے ہاں گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ معاملہ 1953ء میں اس وقت بہت بگڑ گیا جب ہمارے ایک انتہائی قابل احترام عالم دین مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ یہ تجویز لے کر مشرقی پاکستان پہنچے کہ بنگلہ زبان کو اردو کی طرح عربی رسم الخط میں لکھا جائے۔ اس طرح کی تجاویز سے دو طرح کے نقصان ہوتے ہیں، اہل زبان جن کا صدیوں اور قرنوں سے زبان سے تعلق کے نتیجے میں فطری طور پر محبت کا رشتہ بن چکا ہوتا ہے، اس پر ضرب لگتی ہے اور دوسرے تنگ نظر قوم پرستوں اور غیر ملکی قوتوں کو نقب لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں یہی ہوا۔
قومی یک جہتی کے لیے ضروری ہے کہ علاقائی زبانوں کے بارے میں ان تحفظات کااحترام کیا جائے اور ان زبانوں سے محبت کرنے والوں کو یقین دلایا جائے کہ ان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی اور ماضی کی تلخیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ یہ عہد دہراتے ہوئے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ علاقائی قومی زبانوں کا عدم احترام ہی سانحہ مشرقی پاکستان کا باعث بنا تھا۔
اس کے ساتھ ہی اچکزئی صاحب ہوں یا کوئی اور انھیں بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اردو کے بارے میں بھی کوئی ایسی بات کہیں جو دل آزاری کا باعث بنے۔ علاقائی زبانوں کے احترام کے ضمن میں وہ جس اصول پر کاربند ہیں، اردو کے لیے بھی انھیں یہی اصول پیش نظر کھنا چاہئے۔
یہ حقیقت بھی ان کے پیش نظر ہمیشہ رہنی چاہئے کہ اردو سے صرف وہی محبت نہیں کرتے جن کی مادری زبان اردو ہے بلکہ کروڑوں پاکستانی ایسے بھی ہیں جن کی یہ مادری زبان نہیں لیکن وہ اس کے باوجود اردو سے محبت کرتے ہیں اور شاید ان لوگوں سے بھی بڑھ کر جن کی یہ مادری زبان ہے۔
اردو کی بین الاقوامی حیثیت کے بارے میں اچکزئی صاحب کا مؤقف بالکل درست ہے اور ہمیں اس کی عالمی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے محنت کرنی چاہئے لیکن اس کے باوجود ان کا یہ موقف کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ہماری زبان نہیں۔ اچکزئی صاحب یہ بات نہ کہتے تو بہت اچھا ہوتا۔ وہ آئین کی بالادستی کے جس سفر پر نکلے ہیں، اس میں کامیابی دلوں کو جوڑ کرچلنےمیں ہے۔