سوچتی ہوں برسوں پہلے بنا ٹیکنالوجی کے محبت کیسے کی جاتی ہو گی ۔ فرہاد شیریں کو ملنے کا بلاوا بھیجنے کے لیے کیا کیا جتن کرتا ہوگا ۔ ہیر کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر رانجھا کوکتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے ۔ صاحباں نے مرزا کو کامو ابراہیم کی زبانی اپنے پاس آنے کا جو پیغام بھیجا, وہ بھلا آج کل کے واٹس ایپ میسیجز کی طرح ڈیلیٹ کیسے ہوسکتا تھا ۔۔اسی لیے مرزا کا خون اور صاحباں کی خود کشی کا قصہ محبت کی لازوال داستانوں کے پنوں میں ابد تک نقش ہو گیا ۔
اُس وقت محبوب کی ایک جھلک دیکھنا, محبت بھرے چند بول کہنا, کسی پیڑ کی گھنی چھاوں میں ایک دوجے سے ٹیک لگا کر چند گھڑیاں بتانا , محبوب کو نگاہوں میں بھرنا جس قدر مشکل کام تھا, اس کا نتیجہ شدید محبت کی صورت میں نکلتا ۔ ایسی شدید محبت کہ جان کی پروا کی جاتی نہ بدنامی کا خوف دامن گھیرتا۔ محبت کی سنگلاخ چٹانوں یہ جنم لینے اور امر ہونے والی یہ دشوار کہانیاں اب ہم کیسی آسانی سے دہرالیتے ہیں۔
آج ٹیکنالوجی نے محبت کرنے والوں کی زندگی تو آسان کردی ہے لیکن محبت کوبڑی مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ واٹس ایپ پہ اظہار محبت کے بڑے بڑے دعوے اور پیغامات سارا دن ایک سے دوسرے تک پہنچانا اب کتنا آسان ہے ۔ ایک نظر دیکھنے کی طلب میں ایک دوسرے کو ویڈیو کالز پر پورا کا پورا کھنگالنا اورمحبت کا بھرپور جائزہ لے کر آنکھیں ٹھنڈی کرنا اب ہر محبت کا بنیادی جزو بن چکا ہے ۔ اب محبت کرنے والوں کے درمیان کوی ابراہیم کامو ہے نہ کوی دل آرام ۔ اب محبت کی نشانی وہ خط بھی نہیں جو پکڑلیے جائیں اور لکھنے والوں کے پیروں کی بیڑیاں بنا کر تہہ خانوں کی نذر کر دیے جائیں ۔
اج کل کے نوجوان تو ٹیکنالوجی کے شکر گزار ہیں جس نے ” محبت” کے سارے ثبوت مٹانے کے نت نئے طریقے فراہم کرمحبت کے نام لیواوں کو بے جا پریشانی سے بچا لیا ہے ۔لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ محبت کی ساری منزلیں سبک روی سے طے کر کے بھی اب کوی ہیر کوی سسی کوی صاحباں ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔ فرہاد, رانجھا, سلیم ,رومیو سب کو ہی تو یہ ٹیکنالوجی نگل چکی ہے ۔ٹیکنالوجی نے یہ کیسا ظلم کیا کہ ہر فرد کو محبت کے دھوکے میں جکڑ کر اس امر ہونے والے فلسفے کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
محبت کے لفظ پر اٹھنے والی یہ ساری سوچیں کسی فیل کی طرح میرے اس نازک سے تخیل کو روندے ڈالتی ہیں جہاں اب بھی کوی ہیر سسکیاں بھرتی ہے ۔ جہاں چناب کی لہروں میں اب بھی کوی سوہنی کچے گھڑے کو پکا جان کر بے فکری سےتیر جاتی ہے ۔ وہ تخیل جس میں آج بھی کوی سسی سسی پکارتا بھنبھور کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے اور میں اس منظر کو وقت کی دیوار سے ٹیک لگاے بیٹھی دیکھ رہی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ کاش ٹیکنالوجی نے محبت کے اس قدیم فلسفے کو توبخش دیا ہوتا۔