ADVERTISEMENT
تیسری جماعت میں ضد کرکے ابا جی کے ہمراہ راولپنڈی کی طرف سفر شروع کیا تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتاتھا۔ بس پر اگرچہ ہماری سیکنڈسیٹ تھی جو اس زمانے میں وی آئی تصور ہوتی تھی لیکن پھر بھی آٹھ گھنٹے لگ جاتے راولپنڈی ریلوے روڑ کے ریکس ہوٹل پہنچتے پہنچتے۔
راستے میں تین پڑاؤ آتے۔ منگ رکتے جہاں کے لوگوں کے دلچسپ واقعات اور قصے اکثر محفلوں کو زعفران زار بنادیتے ہیں۔ چائے پی جاتی۔ دکانوں کے عقب میں مسافر ’’ہوا کے دوش‘‘ پر واش روم کی سہولت حاصل کرتے۔
اگلا پڑاؤ آزاد پتن میں فاروق ہوٹل ہوتا۔ گرما گرما دال چاول اور روٹی کے ساتھ دودھ پتی، سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا۔ نماز کے لیے چھوٹی سی مسجد دریا کے کنارے پہ موجود تھی۔ نمازی اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے۔
آخری پڑاؤ کہوٹہ بازار سے ذرا پہلے ایک زیارت پر ہوتا۔ زمانہ قدیم سے تہہ خاک آرام کرنے والے پیر صاحب کی اس آخری آرام گاہ کے پہلو میں پانی کا ایک کنواں تھا۔ راولاکوٹ اور پلندری سے آنے والے مسافر یہاں رکتے، پیاس بجھاتے اور دل میں کچھ دعائیں بھی کرتے ۔ چھوٹے سے مزار پر موجود مجاور مسافروں کو سٹیل کے گلاسوں میں پانی پلاتے۔ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر جام تھامنے کی کوشش کرتا۔۔ روایت تھی کہ پانی پیتے ہوئے کی جانے والی دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہیں۔
ابا جی کے ہمراہ اس زیارت سے پہلی بارپانی پینے کی یاد ابھی تک حافظے میں ایسے نقش ہے جیسے کل کی بات ہو۔ عشروں یہ سلسلہ چلتارہا۔ رفتہ رفتہ خوشحالی آگئ۔ زیارتیں اور خانقاہیں ویران ہوگئیں۔ کنویں کا پانی نہیں لوگ نیسلے کا پانی پسند کرتے ہیں اور بچے پیپسی۔
اب یہاں کوئی بھولا بسرا مسافر ہی پاؤں رکھتاہے۔ مجاور بھی اکثر دنیا سے چل بسے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ اب بھی لوگ رکتے ہیں لیکن کم کم ۔بچوں کو میں اپنے عہد کی داستانیں سناتاہوں۔ دل رکھنے کو سن لیتے ہیں اور کبھی چڑ جاتے ہیں۔ اپنے عہد میں وہ جینا چاہتے ہیں اور میں اپنے عہد سے دامن چھڑا نہیں پاتا۔
پرے سال یہاں رک کر تصویر بنائی۔ بیتے دنوں کو یاد کیا۔ زمان بس کی سواری اور راستے میں ہونے والے گفتگو نے کافی دیر تک دل ودماغ کو مسحور کیے رکھا۔ دل کرتا ہے کہ کوئی زمان بس کے سفر کی کہانی لکھے اور میں پڑھوں۔ دور دیسوں سے آنے والے لوگوں کے قصے سنائے۔ بتائے کہ یہ سب کچھ جو آج ہم دیکھ اور برت رہے ہیں راتوں رات متشکل نہیں ہوا۔ اس کے لیے اگلی نسلوں نے خون پیسنہ ایک کیا ہے۔ انہیں یاد کیا جانا چاہیے۔