تھوڑی سی فرصت اگر مری والوں کو برا بھلا کہنے سے ملی ہو تو عملی کام بھی کر لیں۔ حادثے ہوتے رہتے ہیں اور یہ ہوتے رہیں گے۔ اگر ہم نہ سنبھلے گے لیکن حادثہ ء مری سے ہم نے کوئی سبق سیکھا؟ جی بالکل جیسے ہزارہ ،کشمیر میں آنے والے زلزلے سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔
اپ کو علم ہے کہ اسلام آباد جب بن رہا تھا تو یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ پورا علاقہ فالٹ لائین پر ہے۔ لہٰذا یہاں کیپیٹل نہ بنایا جائے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ پانی نہیں ملے گا۔ کہتے ہیں، لال شاہ باجی سوراسی والوں نے اپنے مرید ایوب خان سے کہا کہ یہیں بناؤ۔ بابا جی لال شاہ سوراسی والے اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اللہ غریق رحمت کرے پتہ نہیں انہی کی دعائوں سے مری بچا ہوا ہے لیکن بلڈنگ کوڈز کی جو دھجیاں مری میں اڑائی گئی ہیں۔ یہ کسی بھی وقت خطرے کی گھنٹی بجا دیں گی۔ اللہ خیر کرے۔
مری کے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا۔ اس سلسلے میں صداقت علی عباسی صاحب سے گفتگو بھی ہوئی۔ کچھ ان سے پوچھا بھی گیا اور جواب بھی ملا۔ سچی بات ہے بھائیو! خدارا اس سوچ سے نکلیں کہ مری والے سارے ہی خراب ہیں۔ نبی پاک کا فرمان ہے کہ کسی بھی علاقے کے لوگ سارے ہی اچھے نہیں ہوتے اور نہ ہی برے۔ اللہ پاک نے ہر شہر ہر قصبے میں اچھے برے لوگ پیدا کر رکھے ہیں۔
مری پر طعن و تشنیع کرنے سے پہلے یہ بات یاد رکھئے کہ لوگ ہمیشہ اپنے شہر اپنے گائوں اپنے قبیلے کو سب سے اچھا سمجھتے ہیں۔ میں کوئی ربع صدی سعودی عرب میں رہا ہوں۔ مجھے اس ملک کے طول و عرض میں جانے کا موقع ملا ہے۔ کویت کے بارڈر پر خفجی رحیمہ سے لے کر یمن کے بارڈر نجران تک کا علاقہ میں نے دیکھا ہے۔ ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ مکہ کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے بڑے سنگدل ہیں۔ وہ اپنے آپ کو غصے میں آ کر یہ اکثر کہتے ہیں انا من مکہ ما یبغ کلام فادی۔میں مکہ سے ہوں میں فضول باتیں نہیں سنوں گا۔ گویا مکاوی غصے سے بھرے لوگ ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں اہل مکہ میں سمر قند بخارا سے آنے والے برما سے جا کر بسنے والے ہند سے ہجرت کر کے جانے والے سب ہی موجود ہیں۔
وہاں آپ نے خوجیر نامی ٹرانسپورٹ دیکھی ہو گی جمیل خوجیر مغربی ہے۔ بعد سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے۔ یہ صاحب کھوکھر ہیں۔ کوئی دو سو سال پہلے ہند سے گئے تھے۔ خود مغربی مراکش سے ہیں ۔عالم عطر جی پشاور کے پٹھان ہیں۔ بشاور للنظارات پشاور کے ہیں۔ دہلوی للنظارات دہلی سے ہیں۔ یہ مکہ کے وارث ہیں۔ کاروباری ہیں۔ بڑی بڑی بلڈنگوں کے مالک ہیں۔ اکرم تشودری چوہدری اکرم ہیں۔ اسی طرح مصریوں کی لائین لگی ہوئی ہے۔ مکہ میں باب عبدالعزیز پر بیٹھ جائیے کالے سرخ سفید گندمی چپٹا ستواں ناک والا سب مل جائیں گے۔
یہ ہیں مکہ کے لوگ۔ جنہیں ریاض والے بقایۃالحجاج کہتے ہیں۔ یعنی حاجیوں کے بچے کھچے۔ یہ کاروباری لوگ ہیں۔ حج کے دنوں میں اپنی بلڈنگیں کرائے پر دے کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ گھر میں رہیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بیگمات گھر کے باہر چائے بیچ کر پیسے بناتے ہیں۔ ہر دم پیسہ پیسہ ۔
یہی لوگ ریاض والوں کو بدو اور جاہل کہتے ہیں۔ منطقہ شرقیہ دمام میں امریکی کمپنی ارامکو سے جڑے لوگ طاقت میں ہیں۔ یہ شہر شام پڑتے ہی سو جاتے ہیں۔ منظم پڑھے لکھے تیل کی دولت سے مالا مال لوگوں کو جدہ مکہ کے لوگوں میں عرب نظر نہیں آتے۔ یہ اہل ریاض جدہ اور دمام والوں پر ہنستے ہیں۔ اپنے آپ کو اصیل کہتے ہیں۔ حفر الباطن ایریا میں گیا۔ ہر بڑے محل نما گھر کے ایک کونے میں خیمہ لگا رہتا ہے۔ یہ تفاخر کی علامت ہے ۔جیسے ہمارے ہیں گائوں میں چوپال یا ڈیرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں کے چوہدری خیمے میں محلے داروں کو چائے شائے پلاتے ہیں ۔
اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ برادران یہ جو قصے مری والوں کے خلاف چلائے گئے ہیں ضرور ہوئے ہوں گے لیکن جو باتیں کچھ لوگوں نے بتائیں اس کا الٹ بھی سنی ہیں۔ لہٰذا سارے ہی مری والوں پر نہ چڑھ دوڑیں۔ سری لنکن مینجر کو وحشیانہ قتل کرنے کے بعد آپ عثمان ڈار یا پورے سیالکوٹ کو برا کہیں گے؟ موٹر وے پر ریپ ہوا کیا لاہور زانیوں کا ہو گیا؟کراچی سے بوری بند لاشیں آئیں سارا کراچی بد معاش ہو گیا؟ بلوچستان سے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر پنجابی مارے گئے؟ قاسم خان سوری برا ہو گیا؟
سر! سوچیئے یہ سر پھٹول کر نے کا وقت نہیں۔ ہو گیا واقعہ، ہونا تھا ہو گیا۔ جو قومیں بے ہنگم زندگی گزارتی ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو کوئی بھی کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے ۔کوئی ڈی سی کی کلاس لے رہا ہے اور کوئی اے سی کی کلاس لیتے ہوئے بھاری بھر کم باتیں کرتا ہے۔ باتیں سب ہی کی ٹھیک ہیں۔ کاروباری لوگ ہیں۔ سیزن ہے۔ برف باری پندرہ دن ہوتی ہے۔ اور سارا سیزن کرایہ دینا ہوتا ہے۔ ایسے میں لالچ دھن دھونس سب چلایا گیا ۔
۔مری کے جی پی او سے نیچے سڑک کے آخر تک دکانیں دیکھ لیں ستر فی صد ہمارے پشتون بھائیوں کی ہیں۔ کچھ سندھ سے آئے ہندو بھی ہی۔ں کوئی پنجاب بلوچستان کے بھی۔ اب آپ پوٹھوہاری بولنے والے بھائیوں ہر نہ چڑھ دوڑیں۔ ایک دوست کا خیال ہے کہ ایک بڑے نامور ہوٹل کے مالک کے داماد نے کہا آن دیو آن دیو۔
بحر حال جتنے منہ اتنی باتیں۔
اب آئیے تجاویز دیتے ہیں کہ ہم آئندہ سال کیسے بچ سکتے ہیں
1.پہلی بات ہے انگریز کے بنائے ہوئے بلڈنگ کوڈز پر عمل کریں۔ ورنہ زلزلہ اگر سات یا آٹھ ریکٹر سکیل پر آیا تو مری تباہ ہو جائے گا۔ سیمنٹ سے بنی عمارتیں موت کا چیمبر بن جائیں گی۔
2.مری کے سارے راستوں سے دور مکہ مکرمہ طرز کی پارکنگ بنائی جائیں۔ جہاں پر باہر سے آنے والی گاڑیاں روک دی جائیں پھل گراں کے پاس یا بھارہ کہو کے قریب ۔یا پھر مناسب جگہ ۔یہاں سے بڑی بسیں یا ویگنیں اوپر لے جائیں
3.ہر ہوٹل کو مختلف کیٹگری میں تقسیم کریں ۔سیزن اور آف سیزن کا کرایہ فکس کیا جائے ۔جس طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ہوٹلوں میں ہوتا ہے ۔آپ کو علم ہونا چاہئے کسی معلم کی بس کے مسافر اگر روڈ پر بے سرو ساماں پکڑے جائیں اسے بھاری جرمانہ ہوتا ہے ۔
سر! کیا لکھوں خدا قسم دل کرتا ہے۔ اس ملک کو چھ ماہ کے لیے سعودی حکومت کو ٹھیکے پر دے دیں۔ آپ کو یہ ملک سیدھا کر کے دے دیں گے۔
4 ۔ٹورازم کی باتیں تو ہم بہت کرتے ہیں۔ کیا ہم نے ٹورازم کا کوئی انسٹی ٹیوٹ بنایا ہے؟ بالکل بھی نہیں آج ہی ہنگامی بنیادوں پر تین سالہ ڈپلومہ یا ڈگری پروگرام شروع کریں۔جس طرح آپ ڈاکٹر کے علاؤہ کسی کو علاج نہیں کرنے دیتے۔ اسی طرح ان ہوٹلوں کے استقبالیہ ،ہائوس کیپنگ پر پڑھے لکھے لوگوں کو لائیں۔
5.موجودہ سٹاف کو چھ چھ ماہ کے کورس کرائیں۔
6.سیاحوں کو ایک لیف لیٹ دیا جائے جس میں لکھا گیا ہو کہ برف میں پھنس جائیں تو کیا کریں۔ کون سا سامان ساتھ لے جائیں ۔میں وہ واحد شخص ہوں جس نے اسی رات سیاحوں کے مرنے کی وجوہات بتا دی تھیں۔ لوگ سردی سے نہیں زہریلی گیس سے مرے۔
7.حکومت پاکستان catylitic converters کو گاڑیوں کا لازمی جزو بنائے جو فضاء میں کم زہریلی گیس نکلنے دیتے ہیں۔
8. اس قوم کا ایک اور بڑا مسئلہ عوامی ٹوائیلیٹس ہیں۔ سیاحتی مقامات پر ایسے ٹوائلیٹ ضروری ہیں جہاں مرد اور خواتین معزور افراد حوائیج ضروری کے لیے جا سکیں ۔رش کے مقامات میں جتنی تکلیف بزرگ حضرات کو ہوتی ہے اور خواتین کو اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ٹوائلیٹس ضرور بنائیں۔
9.آخری اہم بات یہ ہے کہ ڈی سی کے بس کی بات نہیں۔ جو اتنے بڑے ضلعے کو کنٹرول۔کر سکے اور نہ ہی وزیر اعلی کے بس کی بات ہے کہ وہ اتنے بڑے صوبے کو کنٹرول کر سکے۔ پنجاب کے تین صوبے، کراچی اور صوبہ ہزارہ صوبہ بنایا جائے۔ جب تک چھوٹے انتظامی یونٹ نہیں بنائیں گے ملک نہیں چلے گا۔ بلوچستان کو بھی تین صوبوں میں تقسیم کریں۔ وہاں آبادی نہیں حجم کے حساب سے صوبے بنائیں۔ قارئین ملک میں چھوٹے صوبے بہت ضروری ہیں۔ تخت لاہور اور پشاور کو کوئی نہیں مانتا۔
تجاویز تو اور بھی بہت ہیں۔ مگر یہ تجاویز ملکی مفاد میں ہیں۔ شکر ہے جناب بابر اعوان نے میری تجاویز کو سراہا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ان پر ڈسکس کریں گے۔
اللہ کرے اس پر عمل ہو۔
یہ جو قصے مری والوں کے خلاف چلائے گئے ہیں ضرور ہوئے ہوں گے لیکن جو باتیں کچھ لوگوں نے بتائیں اس کا الٹ بھی سنی ہیں۔ لہٰذا سارے ہی مری والوں پر نہ چڑھ دوڑیں