گرچہ اسلامی تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ ہارے ہوئے دشمن کو ذلیل و رسوا نہ کیا جائے لیکن بھارت سے جب بھی مکالمہ ہوا کسی ٹاک شو میں مڈ بھیڑ ہوئی اس نے 1971 یاد دلایا ۔ 1971 کی شکست دل ہر بڑا داغ ہے کاش ہم اسی طرح انہیں بھی شکست دیں کاش یہ خواب پورا ہو تو سکون آئے۔ صلاح الدین ایوبی نے گرے ہوئے رچرڈ کو تلوار تھما کر بڑے پن کا مظاہرہ کیا لیکن جنرل اروڑہ نے جنرل نیازی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی تو تاریخ کا حصہ ہے ۔ہم جیتے ہیں مگر یاد رکھئے ابھی ایک فتح باقی ہے
انسانی تاریخ کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ فرد واحد ہو یا قوم، عزت کمزور و شکست خوردہ کی نہیں بلکہ حملہ کرنے کی طاقت رکھنے والے بہادر اور فاتح کی ہوتی ہے۔ انڈیا پچھلے پندرہ سال سے ہمیں ہر طرح سے ڈرانے ڈھمکانے اور مارنے کی کوشش میں ہے کرکٹ میں بھی وہی چانکیہ روئیے اپنائے ہوئے تھا۔ ہمارے کھیل کے میدان ویران کردیئے، ٹیموں اور کھلاڑیوں کو پاکستان آنے سے روکتا رہا،
بھارت کرکٹ کی دنیا کا بھگوان بنا ہوا ہے اور پیسہ پھینک کر ہمیں کرکٹ میں اچھوت بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ ہمیں اکیلا کردو، دیوار سے لگا دو مگر کل رات کی جیت سے بھگوان کا غرور خاک میں ملایا گیا ہے۔ یہ صرف ایک میچ نہیں تھا بلکہ ڈیڑھ دہائی سے جاری حرکتوں، کرتوتوں اور سازشوں کا بھرپور جواب تھا کہ ہم میں اب بھی دم ہے۔ ہمارا ایک جواب تمھارے سب ماضی پر بھاری ہے اور مستقبل بعید تک یاد رہے گا، یہ جواب ایک پوری نسل یاد رکھے گی۔
عبرتناک شکست کے بعد کوہلی کے ایک روئیے سے پوری قوم کوہلی کوہلی شروع ہوگئی ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ سپورٹس مین شپ ہارنے نہیں جیتنے کے بعد دیکھی جاتی ہے۔ ابھی جو کام کوہلی نے کیا ہے اور پاکستانی صدقے واری جا رہے ہیں۔ پاکستان ہر ہار کے بعد آگے بڑھ کر بھارت کو مبارک دیتا رہا ہے مگر جواب میں ہمارے کھلاڑیوں کو نخوت سے جھٹکتے رہے ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کل اگر بھارت جیت جاتا تو کیا وہ وہی انداز اختیار کرتے جو بابراعظم نے کیا ہے۔ اگر آپ بھارت کی نفسیات اور عادات کو نہیں جانتے تو ذرا پیچھے جا کر جھلکیاں دیکھیں جب 2014, 2015, 2016, 2019 میں جیتنے کے بعد انڈین کھلاڑیوں کے دماغ غرور سے بھرے اور چہروں پر شیطانی قہقہے تھے۔اس سے بھی پیچھے جاکر مارچ 2012 ڈھاکہ کو یاد کریں جب کوہلی نے 183 ناٹ آؤٹ کرکے پاکستان کو ہرایا تو پورے گراؤنڈ میں تکبر سے چھلانگیں مار کر چیخ رہا تھا اور بڑھکیں مار رہا تھا۔ کوہلی کو پاکستان سے ہارنے کے بعد نہیں پاکستان سے جیتنے کے بعد دیکھیں تاکہ آپ کو اصلیت پتہ چلے۔
اس وقت تعریف شکست خوردہ کوہلی کی نہیں فاتح بابراعظم کی بنتی ہے کہ اس نے جیتنے کے بعد بھی تکبر کے نعرے مارنے اور غرور سے اکڑنے کی بجائے شکست خوردہ کوہلی کو خوش دلی سے گلے لگایا، بڑا انسان اور بڑا کھلاڑی وہ ہوتا ہے جو جیتنے کے بعد ہارنے والے کو عزت دیتا ہے۔
بابراعظم، بہترین کھلاڑی ہی نہیں عظیم انسان بھی ہے جو جیت کر بھی شکست خوردہ کو عزت دینا جانتا ہے۔ تعریف کے قابل کوہلی نہیں بابراعظم ہے۔
شاباش بابراعظم، زبردست گرین ٹیم، زندہ باد سبز ہلالی پرچم، پائندہ باد پاکستان
میں سمجھتا ہوں کہ اللہ پاک کا خاص کرم ہوا ہے کہ اوپر والی تحریر بار بار پڑھئے میرے ایک دوست نے تحفہ بھیجا ہے ،میں بھی کل سے سوچ رہا تھا کہ کیا بھارت بھی بابر اعظم کی طرح برتائو کرتا کبھی نہیں۔ یہی فرق ہے ہے پاکستان میں اور بھارت میں ۔مجھے ٹاک شوز کے دوران اس قسم کے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے میں نے کئی بار انڈین چینلز پر پیار اور محبت سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار انڈینز اینکرز نے ہاتھ جھٹک دیا اور پھر کیا ہوا میں نے انہیں ان سے بڑھ کر سخت جواب دئے ۔بابر اعظم سو بار بھی دوستی اور پیار کا ہاتھ بڑھائے دیکھ لینا بھارت کبھی اس دوستی کا جواب دوستی سے نہیں دے گا
جنرل جی ڈی بخشی اور میجر گورو آریہ سے جب بھی بات کی بد تمیزی سے جواب دیا گیا اور جب انہیں انہی کی زبان میں جواب دیا تو بدزبانی کی۔
یاد رکھئے سپاں دے ہتھ کدے نہ دیئیے، بھانویں چلیاں دودھ پلائیے
قوم کو فتح مبارک لیکن میرا مشورہ ہے کہ نیکی کسی اصل کے ساتھ کی جاتی ہے بد نسلے وقت آنے ہر اصلیت دکھائیں گے
ہمیں جتنا ذلیل و رسوا نیوزی لینڈ کے ذریعے بھارتی کرکٹ فیڈریشن نے کیا ابھی قرض باقی ہے
اور ابھی ڈھاکہ پلٹن میدان یاد ہے