آدمی ہی آدمی کا دشمن ہوتا ہے۔ آدمی جانوروں کا، نباتات کا، جمادات کا، زمین و آسمان کا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ دشمن ہوتا ہے تو آدمی کا۔ اپنے ہی جیسے آدمی کا جو گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنا ہوتا ہے۔ اس کے سر میں دماغ اور سینے میں دل ہوتا ہے۔ آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پہ ہنسی ہوتی ہے۔ ایسے آدمی کا دشمن ہونا کتنا مشکل اور کتنی افسوسناک بات ہے مگر ایسے ہی آدمی کا دوسرا آدمی دشمن ہوتا ہے۔ آدمی کا پہلا دشمن قابیل تھا جس نے اپنے سگے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔ قتل کرکے پچھتایا کہ اب میں بھائی کی لاش کا کیا کروں۔ تب خداوند تعالیٰ نے دو کوّے بھیجے۔ دونوں قابیل کے سامنے آکر لڑنے لگے۔ ایک کوّے نے دوسرے کوّے کو مار ڈالا اور پھر زمین کھود کر اس نے مردہ کوّے کو زمین میں دفن کر دیا۔ کوّے سے قابیل نے سیکھا کہ اسے اپنے مردہ بھائی کو زمین کھود کر دفن کر دینا چاہیے۔ جب اس نے ایسا کرنا چاہا تو اسے یاد آیا کہ اسے اپنے بھائی کو قتل کرنا تو آتا تھا، دفن کرنا نہ آتا تھا اور یہ اسے کالے کوّے نے سکھایا۔ تب قابیل یہ کہہ کر رو دیا کہ ہائے میں تو اس کوّے جیسا بھی نہ ہوا۔ تب سے آج تک انسان، انسان کو قتل کرتا چلا آرہا ہے۔ ہر روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ شوہر بیوی کو قتل کر دیتا ہے، دوست، دوست کو اور جائیداد کے جھگڑے میں بھائی، بھائی کی گردن مار دیتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟
دشمنی!
انسان اور انسان کے بیچ دشمنی ہو جاتی ہے۔ کسی نہ کسی وجہ سے۔ جب دشمنی ہوتی ہے تو آدمی اپنے اندر اس دشمنی کو پالنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے ہم اپنے گھر کے پودے کو پانی دے کر، کھاد دے کر بڑا کرتے ہیں۔ انسان بھی اپنی دشمنی کو پوستا پالتا ہے جس سے یہ دشمنی اس کے دل و دماغ پہ چھا جاتی ہے اور پھر جوں ہی اسےموقع ملتا ہے وہ اپنی دشمنی نکالتا ہے اور جس سے دشمنی ہوتی ہے اس کوقتل کر ڈالتا ہے۔ ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی آج بھی ہو رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ دشمنی ہے کیا؟ قابیل کو ہابیل سے کیا دشمنی تھی؟ دشمنی کی وجہ عورت تھی۔ قابیل اس عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا جو ہابیل کی تھی۔ آج بھی عورت کی وجہ سے قتل ہو جاتے ہیں۔ دشمنی کی دوسری وجہ زمین یا مال و دولت ہوتی ہے۔ زمین پر قبضہ، مال و دولت پر قبضہ، اس جھگڑےمیں قتل ہو جاتے ہیں۔ تو اگر غور سے دیکھا جائے تو دشمنی کی سب سے بڑی وجہ لالچ اور حرص و ہوّس ہوتی ہے۔ انسان لالچی بھی ہوتا ہے، وہ حرص و ہوّس کا بندہ بھی ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی لالچ اور حرص و ہوّس کی خواہش پر قابو پالے تو وہ دوسرے انسان کو قتل کرنے سے خود کو روک سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خود کو روکے تو کس طرح؟ اس کا اگر کوئی طریقہ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے لالچ کے جذبے کو پہچانے۔ وہ یہ جانے کہ اسے دشمنی ہے تو کیوں ہے؟ لیکن جو آدمی اتنا سمجھ دار ہوگا وہ قتل جیسا جرم کرے گا ہی کیوں؟ اب یہ ذمہ داری حکومت اور ریاست کی ہے کہ وہ قاتل کو سزا دے اور اتنی کڑی سزا دے کہ اس کے جیسے دوسرے آدمی کو عبرت ہو۔عبرت پکڑنے کا مطلب ہے ڈر جانا، سہم جانا۔ خوفزدہ ہو جانا۔ جب ایک قاتل کو عبرت ناک سزا ملتی ہے تو ایسے لوگ جو کسی نہ کسی دشمنی کی وجہ سے قتل کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں وہ خوفزدہ ہوکر اپنے ارادے سے باز آجاتے ہیں کہ کہیں ان کا انجام بھی اتنا ہی عبرتناک نہ ہو جائے__ پس پتہ چلا کہ قتل و غارتگری دنیا میں اس لیے ہے کہ قاتل خونی اور درندہ صفت انسان بچ نکلتے ہیں اور انھیں سزا نہیں ملتی۔ جب یہ سزائیں قاتلوں کو ملنے لگیں گی تو قتل کے واقعات میں بھی بہت کمی آجائے گی۔ یہ الگ بات کہ انسان قتل کرنا پھر بھی نہیں چھوڑے گا اس لیے کہ زمین پہ آکے انسان نے پہلا جرم، پہلا گناہ قتل کرکے کیا۔ کیوں کیا، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے __ کیوں کہ فرشتوں نے جب پوچھا تھا کہ اے معبود! تو ایسی مخلوق خلق کرے گا جو زمین پہ جاکے خون بہائے گی تو خداوند تعالیٰ نے جواب دیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ خدا کیا جانتا تھا اس نے ہمیں نہیں بتایا۔ اس لیے ہم اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔
ایک انسان اپنے مفاد میں خون بہاتا ہے اور ایک عام آدمی اپنے ذاتی مفاد میں ایسا کرتا ہے __ تو پھر انسانی خون اور انسانی جان کی قدر و قیمت کے کیا معنی ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتی ہے کہ ایک انسان کا قتل کرنا ساری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور جو ایک انسان کی جان بچاتا ہے وہ ساری انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔
آج دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے؟ کشمیر میں فلسطین میں، شام میں اور دوسرے ملکوں میں اور تاریخ کے صفحات پلٹیے تو کیا کیا چنگیز خان، ہٹلر اور اسٹالن نے __ جن کی گردنوں پہ لکھوکھا انسانوں کا خون ہے۔ آج بھی ایسے ہی درندہ صفت انسان موجود ہیں جنھوں نے انسانوں کا خون بہایا ہے لیکن کتنے ہی لوگوں کے نزدیک وہ ہیرو ہیں، ان کے آئیڈیل ہیں __
کیوں؟ اس لیے کہ انسان جہاں خون بہانے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہیں وہ خون بہانے کو پسند کرتا ہے، خصوصاً اس کا خون جس سے اسے نفرت ہو۔ہم جو کہہ سکتے ہیں وہ فقط یہ ہے کہ انسان اندر سے قاتل، وحشی اور درندہ بھی ہوتا ہے۔ جہاں وہ احسن فی تقویم ہے وہیں اسفل السافلین بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے اسفل السافلین کی پستیوں سے نکال کے احسن فی تقویم کے اعلیٰ مدارج تک کیسے پہنچایا جائے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر انسان ایک دانشور، ایک قانون ساز اور ایک منصف و جج کی حیثیت سے غور کرتا آیا ہے۔ سارے قوانین اسی لیے بنائے گئے ہیں اور آج بھی بنائے جاتے ہیں کہ انسان کو کشت و خون سے کیسے روکا جائے۔ لڑکپن میں ہمیں یاد ہے کہ ہم نے ایک اخبار کے سوال و جواب کے کالم میں یہ سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ ایک آدمی جب دوسرے آدمی کو قتل کر دے تو اسے قاتل کہا جاتا ہے لیکن ایک فوجی جرنیل، ایک کمانڈر لاکھوں انسانوں کا خون بہا لے تو اسے تمغۂ شجاعت کیوں دیا جاتا ہے۔ دنیا اسے ایک عظیم جرنیل کی حیثیت سے کیوں یاد کرتی ہے۔ ہمارے اس سوال کو انعامی سوال قرار دیا گیا لیکن جواب آج تک نہیں ملا۔ اس سوال پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ انسان کو بھی کشت و خون بہا ناپسند ہے۔ فرق فقط اتنا ہے کہ فوجی جرنیل اپنے وطن کے دفاع یا غلبے کے لیے قتل کرکے سرخرو ہوتا ہے اور عام آدمی اپنے مفاد میں بدلہ لینے یا دشمنی میں ایسا کرتا ہے۔
اب آیئے اس جانب کہ انسان کو خون بہانے سے کیسے روکا جائے۔ دوسرے لفظوں میں ایک محترم انسان کو مودی، الطاف حسین اور ایسی ہی کوئی شخصیت بننے سے کس طرح بچایا جائے۔ چلیے یہ تو وہ شخصیتیں ہیں جن کے مظالم کا علم ہم سب کو ہے __ لیکن انھیں آپ کیا کہیں گے جو پس پردہ رہ کر قتل کراتے ہیں۔ اور جن کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کُھل کر اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ جس کے ذریعے قتل کراتے ہیں اسے بھی زندہ نہیں چھوڑتے۔
تو جو سوال ہم نے اٹھایا اس کا جواب صرف یہ ہے کہ جب تک احترام آدمیت کو بحال نہیں کیا جائے گا اور احترام آدمیت میں انسان کی جان مال اور عزت و آبرو کی حرمت شامل ہیں۔ لیکن احترام آدمیت کو کیسے بحال کیا جائے یہ الگ موضوع ہے۔