ہاں یہ سوال ایسا ہے جو ہر ذہن میں ہے۔ ہم سب کو اسی ایک سوال کا سامنا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب تک؟ کب تک ہم چہرے کو ماسک سے ڈھانپے، ہاتھوں پہ دستانے پہنے رہیں گےاور گھر آکے دونوں ہاتھوں کو صابن سے دھو دھو کر صاف کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے گھروں میں نظر بند رہیں گے؟ اپنے ہی مکانوں کے قیدی، اپنے ہی آشیانوں میں پر پھڑپھڑاتے رہیں گے؟ دنیا پہ ایسا پیغمبری وقت اب سے پہلے کبھی نہیں پڑا تھا۔
تو پھر اے لوگو! تم سوچتے کیوں نہیں؟
غور کیوں نہیں کرتے کہ یہ وقت آیا ہے تو کیوں؟
پچھلے کالم میں ہم نے لکھا تھا کرونا کا جرثومہ دنیا کو اور انسانوں کو ٹھیک کرنے آیا ہے۔ کیوں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ بہت کچھ بُرا تھا، کچھ زیادہ ہی بُرا۔ اتنا برا کہ گمان کہتا ہے کہ رب کائنات نے بھی اس ظلم و استحصال سے ماری دنیا کی طرف سے اپنا رخ پھر لیا ہوگیا۔ کبھی کبھی وہ بھی سوچتا ہوگا کہ انسان کو خلق کرکے اس نے کچھ اچھا نہیں کیا __ یہ درست ہے کہ خدا سے کبھی لغزش نہیں ہوتی کہ وہ اپنے وجودمیں کامل و اکمل ہے لیکن کیا یہ بھی درست نہیں کہ اس نے اپنے خلق کیے ہوئے انسانوں میں جو امکانات رکھے تھے اور جو امیدیں اس نے باندھی تھیں اور یہ دیکھنے کے لیے کہ اس دنیا کے خاتمے کے بعد اگلی دنیا میں انسان کیا کما کے اپنے ساتھ لائے گا؟ یہ امکان خود انسانوں کے اندررکھا تھا اور وہ خود منتظر تھا کہ آزادی وارادہ دے کر اور برا بھلا بتا کہ، جنّت کی لالچ اور جہنّم کا خوف دلا کر اسے انتظار تھا اور آج بھی ہے کہ انسان اس کی امیدوں پہ پورا اترتا ہے یا نہیں۔ ان امکانات کو پورا کرتاہے یا نہیں جو خدا نے انسان میں رکھے تھے۔ اور وہ امکان تھا سارے گناہوں کے بعد ندامت کے ساتھ رجوع کرنا اللہ سے۔ اور یہ کہنا ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہ اے خداوند تعالیٰ، بھول ہوگئی، سو مجھے معاف کر دے۔ ہاں اگر اپنے تمام گناہوں کے ساتھ انسان ایک بار نہیں ستّر بار بھی خدا سے رجوع کرے تو وہ رحیم و کریم خدا معاف کر دے گا کہ معاف کر دینا اسے پسند ہے۔ یہ الگ بات کہ معاف کر دینے کی جو صفت اللہ میں ہے وہ خود انسانوں میں نہیں۔وہ اپنے گناہوں پہ خدا سے معافی مانگنے کے لیے باآسانی تیار ہو جاتا ہے لیکن اپنے جیسے انسانوں کو اس کے ظلم و زیادتی پر معاف کر دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتا۔ وہ ستّر قتل کے بعد خدا سے کہے تو خدا اسے معاف کر دے گا اور مقتولوں کو روز حشر کسی نہ کسی طرح دے دلا کر راضی کرلے گا لیکن انسان اپنے ہی جیسے انسان کی زیادتی پر معاف کرنا تو درکنار، بدلہ لینے اور انتقام لینے پر تُلا رہتا ہے یہ بھول کر کہ اگر یہی معاملہ خدا اس کے ساتھ کرے تو اس پر کیا گزرے گی؟ کرونا کا جرثومہ کچھ نہیں، فقط ایک یاد دہانی ہے __ اس بات کی یاد دہانی کہ معاف کر دو ان سب کو، جنھوں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی یا تمھیں تکلیف پہنچائی۔ ہمارے زمانے کے ایک عارف واصف علی واصف کہا کرتے تھے کہ یہ دنیا جنّت بن سکتی ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو معاف کر دیں اور ایک دوسرے سےمعافیاں مانگنا شروع کر دیں۔
معاملہ صرف انسان اور انسان کا نہیں۔ قوم کا دوسری قوم سے ایک ملک کا دوسرے ملک سے بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اقوام اور مختلف ممالک کا ایک دوسر ے سے نفرت و حسد، بدگمانی اور بدمعاملگی اس درجے پہ ہے کہ عالمی امن اور بھائی چارگی ایک خواب بن چکے ہیں۔ خدا نے انسانوں کو خاندانوں، قبیلوں اور قوموں میں اس لیے تقسیم کیا تھا کہ وہ پہچانے جاسکیں۔ ایک خاندان، ایک قبیلے اور ایک قوم کو دوسرے خاندان، دوسرے قبیلے اور دوسری قوم سے الگ کیا جاسکے۔ یہ ایک سہولت تھی جو جلد ہی عصبیّت بن گئی۔ ایک پر دوسرے کی بڑائی اور عظمت و بلندی کا سبب بنا دیا گیا۔ خدا نے اپنے پیغمبر سے کہلوایا کہ تم سب برابر ہو، کسی کو کسی پہ کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ پرہیز گاری اور راستبازی کے۔ تو یہ تقویٰ اور پرہیز گاری تو کتابوں میں بند کرکے طاق پر دھر دی گئی اور عملاً ایک مقابلہ اور مسابقت کا بازار گرم کر دیا گیا۔ آج کچھ نہیں دنیا کے بازار میں مسابقت و مقابلہ کے سوا۔ اور اس مسابقت و مقابلے کے عقب میں حسد، نفرت اور جیتنے اور دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر خود آگے بڑھ جانے کے جذبے کے سوا۔ ہماری تعلیم گاہیں، ہمارے کھیل کے میدان ہماری معیشت و تجارت، ہماری سیاست اور تعلقاتِ بین الاقوام سبھی اس مسابقت اور مقابلے کی دوڑ دھوپ سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس مقابلے میں بے رحمی اور سفاکی ہے، ایک دوسرے سے دشمنی اور بیگانگی ہے۔ ہم پہچان کر بھی دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ اس لیے کہ آنکھوں پہ مقابلے کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ عالمی امداد کے پیچھے، قرضوں کے لین دین کے عقب میں بھی وہی فاتحانہ جذبات اور سیاسی و معاشی مفادات ہیں۔ زمین پہ جو کچھ ہو رہا ہے، کیا خدا اس سے بے خبر ہے جبکہ وہ اپنی کتاب میں بار بار کہہ چکا ہے کہ تم جو کچھ کرتے ہو اور جو کچھ اپنے سینوں کے اندر چھپا کر رکھتے ہو، وہ ان سب سے واقف ہے۔ تم چالیں چلتے ہو حالاں کہ سب سے اچھی چال خدا کی ہے۔ ایک انسان دوسرے کو ہرا سکتا ہے لیکن وہ خدا کو شکست نہیں دے سکتا۔ خدا تو چھوڑو تم ایک حقیر جرثومے کو شکست نہیں دے سکتے۔ یہ خدا نے تمھیں دکھا دیا ہے۔ کاش! تم سوچ سکتے اور اس سارے معاملے کواس زاویۂ نگاہ سے دیکھ سکتے۔ تم دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے، سن کر بھی نہیں سنتے اور دل رکھ کر بھی محسوس نہیں کرتے کہ آنکھوں، کانوں اور دلوں پہ غفلت نے پردے ڈال دیے ہیں۔ یہاں تک کہ تمھیں نصیحت کی بات بھی بری لگنے لگی ہے۔ نصیحت وہ سنتا ہے جو دل سے اپنے آپ کو ناقص اور نامکمل سمجھتا ہے لیکن تم اپنے آپ کو کامل و اکمل سمجھ بیٹھے ہو۔ نعمت دوسروں کے لیے۔ اور اچھائی اور بڑائی کے سارے دعوے تمھاری اپنی ذات اور اپنی کامیابیوں کے لیے۔ خدا نے جتنی نعمتیں تمھیں دے رکھی ہیں، اس کا کریڈٹ بھی تم خدا کو نہیں دیتے۔ اپنی پلاننگ اپنی محنت اور اپنی چالاکی اور ذہانت کو دیتے ہو تو اب کہاں چلی گئی تمھاری محنت اور ذہانت اور منصوبہ بندی؟ کیوں خوف زدہ اور ہراساں ہو کر اپنے گھروں میں مقیدہو اور نہایت بزدلی سے پکار رہے ہوکہ جرثومے سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ لڑنے کی ہمّت ہے تو باہر نکلو، اپنی فوج تیار کرواور اور اس جرثومے کے خلاف اعلان جنگ کرو۔ نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے کہ جرثومے نے تمھیں اپنے ہی جیسے انسان سے جدا کر دیا ہے۔ اب تم فاصلہ رکھنے پر مجبورہو۔ مصافحہ اور معانقہ کرنے سے معذورہو۔ تم صرف ایک ہی کام کرسکتے ہو، لفظوں سے کھیلنا اور کھیلتے رہنا۔ تمھارے عیوب گنوائیں جائیں تو مُنہ پھیر لیتے ہو اور ایک خدا ترس ناصح مشفق { FR 12321 }کو معافی مانگنے پر مجبور کر دیتے ہو۔ کیا اس طرح تم غیر مرئی جرثومے کے آتش غضب کو دعوت تو نہیں دے رہے۔ جرثومہ کا آتش غضب اس لیے کہ خدا وند تعالیٰ تو رحمان و رحیم ہے، وہ غضبناک ہوا تو تم کہاں ہوگے کہ ایک معمولی سے جرثومے نے تو تمھارا یہ حال کر دیا ہے کہ اپنے گھروں میں دبک گئے ہو اور سڑکیں اور بازار ویران پڑے ہیں۔ تم خدا سے کیا مقابلہ کرو گے اور خدا تمھاری سطح پہ کیا آئے گا۔ پہلے اس غیر مرئی جرثومے سے تونمٹ لو۔
وقت اب بھی گیانہیں۔ خداوند تعالیٰ نے تمھیں مہلت دی ہے اور یہ بتانا چاہا ہے کہ وہ مسجدوں اور مندروں اور گردواروں اور گرجا گھروں میں نہیں ہے۔ وہ انسانوں کے دل میں ہے۔ اس دل کو تکلیف نہ دو۔ نہ اپنے ہاتھوں سے نہ اپنی زبان سے۔ دل راضی رہیں گے تو خدا راضی ہوگا۔ اس نے اپنی کتاب میں کہہ دیا ہے کہ تمھیں جہنم میں ڈال کر خداکو کیا مل جائے گا؟
خدا نے تمھیں درد دل کے لیے خلق کیا تھا لیکن تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہوکر بے حس و سنگدل ہوگئے۔ اپنے اندر جھانکووہاں کیا ہے۔ خود غرضی، بے حسی، احسان فراموشی، محسن کشی، لالچ، کبر و تکبر اور ایسی ہی سو طرح کی بیماریاں۔ انھیں اپنے اندر سے باہر نکالو۔ اچھے انسان بنو۔ اچھا انسان ہی اچھا مسلمان ہوتا ہے۔ اس سبق کو بھول کر تم نے خود کو طرح طرح کی عصبیتوں اور تنگ نظریوں میں گرفتار کر لیا۔ کرونا کا جرثومہ کچھ نہیں۔ کچھ بھولے سبق جو تمام مذاہب میں موجود ہیں، انھیں انسانوں نے بھلا دیا۔ بس یہ بھولے سبق تمھیں، جملہ انسانوں کو یاد آجائیں تو جرثومے کا مشن پورا ہو جائے گا اور وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔ بہ صورت دیگر دنیا خلق آدم سے پہلے بھی ویران تھی، بنی نوع آدم کی موجودگی میں بھی ویران ہی رہے گی۔