آج دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ مذہبی طبقہ اس وائرس کو آسمانی وبا سے تعبیر کر رہا ہے۔ اور بہت سے لوگ اس طبقے کے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا وند تعالیٰ نے یہ وبا دنیا کے ظالمانہ نظام کو تہہ و بالا کرنے کے لیے بھیجی ہے۔
’’پچھلے کئی ہفتوں سے پوری دنیا تشنج کی کیفیت کا شکار ہے۔ بازار، شاپنگ مال، سینما گھر، کھیل کے میدان، سماجی محفلیں، اجتماعات، سبھی سنسان و ویران ہیں۔ ہر طرف موت کا سناٹا ہے۔ سڑکوں پہ ٹریفک برائےنام ہے، گاڑیاں گھروں کے سامنے یا گیراجوں میں بند ہیں۔ ہسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے گنجائش نہیں رہی اور جو مر جاتے ہیں ان کے لیے مردہ خانوں کے دروازے بند ہیں۔ سراسیمگی، خوف، تشویش اور گھبراہٹ میں گرفتار انسان یہ سمجھنے سےقاصر ہے کہ یہ کیسا وقت عالم انسانیت پہ آپڑا ہے کہ جس کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے عاجز و مجبور ہے۔
میں یہ سارا تماشا اپنے ٹیلی وژن اور موبائل اسکرین پر دیکھ رہا ہوں اور ہنس رہا ہوں کہ کیا انسان کو اب بھی اپنی عجز و مجبوری اور بے حقیقتی کا علم نہیں ہوسکا۔ اور اگر اب بھی نہیں ہوا تو پھر کب ہوگا؟ ابھی تو قدرت نے ایک بہت حقیر سا جرثومہ جسے کورونا وائرس کا نام دیا گیا ہے، آسمان سے زمین کی طرف چھوڑا گیا ہے جس نےعالمی طاقتوں کو لرزہ براندام کر دیا ہے۔ وہ عالمی طاقتیں جو زمین پر خدا بن چکی تھیں اور جن کا اپنے بارے میں گمان تھا کہ وہ جو چاہیں کر سکتی ہیں۔ دنیا کو اپنی انگلی کے اشارے پر نچانے والے عالمی معاشی ادارے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، اقوام متحدہ اور ان کی ذیلی تنظیمیں، یہ سب کی سب خاموش تماشائی بنی ایک معمولی سے جرثومے کی پیدا کردہ تباہ کاریوں کو بے بسی سے دیکھ رہی ہیں اور کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ انسان کی عظمت و بڑائی کے گیت گانے والے شعرا اور قلم کار کہاں چلے گئے اوران کے قلم کیوں چُپ ہوگئے، کیوں یہ اعلان نہیں کرتے کہ انسان عظیم ہوکر بھی کتنا مجبور و بے بس ہے کہ ایک غیر مرئی جرثومے سے شکست کھا گیا۔ ٹیلی وژن اسکرین پہ نموار ہونے والی یہ تسلّی کہ کرونا وائس سے لڑنا ہے ڈرنا نہیں، کس درجہ مضحکہ خیز ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جاتا کہ خدا سے ڈرنا ہے اور اسی سے اس جرثومے سے پناہ مانگنی ہے تو بات قابل فہم ہوتی۔ ٹوٹے پھوٹے مجبور و بے بس، اپنے گھروں میں خوف و سراسیمگی سے چھُپے ہوئے انسانوں کو جرثومے سے نہ ڈرنے کی ہدایت کرنا ایسا ہی ہے جیسے درخت پر چڑھ کر پناہ لینے والے انسان کو یہ ہدایت دینا کہ آدم خورشیر سے لڑنا ہے ڈرنا نہیں۔ اب گھر ہی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ Stay Home کے نعرے، مصافحہ کرنے اور اپنے ہی جیسے کسی آدمی سے فاصلے پر رہنے کے مشورے، کیا دعوت فکر نہیں دیتے کہ ایسا کیوں ہے؟
اکیسویں صدی میں جنم لینے والی چھُوت کی یہ بیماری ایک طاقتور لہر بن کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے تو یہ بیماری ہم سے کیا کہہ رہی ہے __ کیا اب بھی ہم اپنا محاسبہ نہیں کریں گے، اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کی ہمّت پیدا نہیں کریں گے کہ یہ جو کچھ ہمارے اندر جمع ہوگیا ہے اور جس کی وجہ سے ساری دنیا بے چین و بے سکون ہوگئی ہے، اس پر ہم سوچیں، غور کریں کہ گھروں کے اندر اسی لیے محبوس اور مقید کر دیا گیا ہے یہی سوچنے اور غور کرنے کے لیے۔ مادی ترقی دولت اور آسائشوں کے حصول کے لیے جس گھر کو ہم نے نظر انداز کر دیا تھا، اپنے بیوی بچّوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا تھا، اپنی محبتوں اور صحبتوں سے ناآشنا کرکے ہل من مزید میں خود کو گرفتار کر رکھا تھا، اس جرثومے نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم گھروں کے اندر بند ہوکر، باہر نکلنے کی سہولت سے محروم ہوکر ایک بار پھر ذرا سوچ لیں کہ گھر ہی معاشرے کی بنیاد ہے۔ اگر گھر پرسکون ہے تو معاشرہ پرسکون ہے اور گھر بے سکون ہے تو عالمی برادری بے سکون اور پریشاں حال ہے۔ دلوں میں دوسروں کے لیے بُغض اور نفرت رکھ کر، دوسروں کی طرف سے بے حسی اور لاپرواہی برت کر محض رسم دنیا کو سنبھانے کے لیے ہاتھ ملانا، مصافحہ کرنا یا معانقہ کرنا منافقت اور عیّاری نہیں تو اور کیا تھی،سو اس جرثومے نے سکھلایا کہ پہلے اپنے اندر کی کدورتوں کو دُور کرو، چہرے کی جھوٹی اور نمائشی مسکراہٹوں کو ماسک کے پیچھے چھپا لو اور اس وقت تک چھپائے رکھو جب تک تمھارا اندر صاف اور پوتّر نہیں ہو جاتا اور تمھاری مسکراہٹ اور ہنسی میں محبت اور خلوص کی سچائی شامل نہیں ہو جاتی۔ کیوں کہ جب تُم دوسروں سے ہاتھ ملاتے ہو، اپنے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہو تو یہ جرثومہ جانتا ہے کہ ان باتوں کی حقیقت کیا ہے۔ اس لیے جرثومے نے ڈاکٹروں کے کانوں میں سرگوشی کی کہ ہاتھ ملانے سے روک دو اور چہرے کے اس حصّے میں جہاں مسکراہٹ دوڑتی ہے، چھپا لینے کی ہدایت کر دو اور ہاں گھروں سے باہر رہ کر تم اپنے ہاتھوں سے جتنے گندے کام کرتے ہو، جتنے گندے کھیل کھیل کر ان مقدس ہاتھوں کو گنہ گار کرتے ہو، جب گھر آئو تو پاک پانی سے انھیں اچھی طرح دھو ڈالو تاکہ سارے گناہ دُھل جائیں اور یہ گناہ گھر کی فضا کو بے سکون نہ کر سکیں __ اس جرثومے نے کہا خدا کے گھروں کو بھی پاکیزہ کرو۔ تمھارے سجدے بے روح، تمھاری عبادت مکروہ اور خدا کے گھر تمھارا آنا اور اس طرح آنا کے تمھارا ظاہر اُجلا اور باطن پراگندہ ہو، اس جرثومے کو گوارا نہیں تو اب دنیا بھر میں عبادت گاہیں ویران ہیں۔ خواہ مسجد ہو یا مندر، چرچ ہو یا گردوارہ، مولوی مُلّا، پنڈت اور پادری سبھی اس جرثومے کے آگے لاچار و بے بس ہیں۔
خدا کے بھیجے ہوئے اس جرثومے نے پوری دنیا کے نظام زندگی کو معطّل کرکے رکھ دیا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ دنیا کی ایسی عبرتناک حالت کب تک ایسی ہی رہے گی۔ یہ دنیا جو جزیروں میں بٹی ہوئی تھی، جس میں ایک طبقہ عیش و عشرت میں کھیلتا تھا اور دوسرا طبقہ مجبور و مفلوک الحال تھا، اب یہ دونوں طبقے ایک ہی اسٹیج پر ہیں۔ مجبور و بے پناہ، موت فرق نہیں کرتی دولت مند اور غریب میں۔ جرثومہ کہتا ہے تم سب انسان ہو جو طاقتور ہے وہ کمزور کالحاظ کرے اور جو کمزور ہے وہ طاقتور کو بھی اپنے ہی جیسا سمجھے۔ کیوں کہ طاقت ور بھی جرثومے کے سامنے کمزور ہے __
کرونا کا جرثومہ دنیا کو تباہ و برباد کرنے نہیں آیا وہ دنیا کو ٹھیک کرنے آیا ہے۔ وہ انسانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے آیا ہے۔ یہ سبق کہ مت بھولو کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ مٹی پستی میں رہتی ہے، لہٰذا تم بہت بلند ہوکر بھی پست ہی رہو گے۔ پستی کا مطلب ہے کمزوری، پستی کا مطلب ہے نیچے، پست۔ پستی کا مطلب عاجزی اور بندگی۔ پستی کا مطلب ہے Productivity ___ تم جو کچھ اناج اُگاتے ہو وہ زمین کے نیچے سے انتہائی پستی سے اگاتے ہو اور تم خود بھی انسانی بدن کے نچلے حصّے سے پیدا ہوتے ہو تو پستی ہی تمھاری پہچان ہے۔ ہاں یہ تمھاری روح ہے جو آسمانوں سے اتر کر تمھارے جسم میں آتی ہے، جیسے بارشیں آسمان سے برس کر برگ و بار لاتی ہیں، کھیتیاں اسی بارش سے لہلہلاتی ہیں۔ دریا اور چشمے، ندّی نالے سب اسی بارش سے جل تھل ہوکر تمھاری کھیتیوں کو سرسبز و شاداب کرتے ہیں تو پستی میں رہ کر زمین پر بس کر آسمان کی طرف دیکھنا نہ بھولو __ انسان زمین و آسمان کا مجموعہ ہے __ زمین پہ وہ جنم لیتا ہے لیکن اسے زندگی آسمان سے ملتی ہے۔ آسمان سے اسے کاٹ دو گے تو ڈھور ڈنگر ہو جائو گے، اشرف المخلوقات نہ رہو گے۔ یہ جرثومہ آسمان ہی سے اترا ہے، دنیا کو ٹھیک کرنے، انسان کو درست کرنے__ اسی لیے میرے دوست وسعت اللہ خان نے کتنا درست لکھا کہ
’’کرّہ ارض ضروری مُرمّت کے لیے بند ہے۔‘‘