ہم لوگ ظلم کے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں اور بہ ظاہر اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ وجہ یہ کہ ہم مظلوم ہی نہیں، خود ظالم ہیں۔ ہم ظلم سہتے بھی ہیں، ظلم کرتے بھی ہیں۔ جب تک ہم ظلم کرنا نہیں چھوڑیں گے، ظلم سہنا ہمارا مقدر بنا رہے گا۔ گویا ہم اپنی تقدیر کے قیدی ہیں اور اس قید میں رہتے سہتے پون صدی سے بھی زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے۔ بھانت بھانت کی سیاسی جماعتوں اور اس کے لیڈروں نے ہمیں آلو بنا کر اپنا الو سیدھا کیا ہے اور ہم ہمیشہ ان کے ہاتھوں میں چغد بنے رہے ہیں اور اپنے چغد پن سے اب تک ہمیں نجات اس لیے نہیں مل سکی ہے کہ ہمیں اپنی حالت اور حماقت کا پتہ ہی نہیں چل سکا ہے۔ آئیے ہم اپنی حماقتوں کا شمار کریں۔
سب سے پہلی حماقت یہ ہے کہ ہمیں اپنی عزت نفس کا احساس نہیں ہے۔ عزت نفس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اپنی حقیقت کا احساس اور اپنے وجود کے محترم ہونے کا اعتبار۔ ہم کسی بھی جھوٹے اور وعدہ خلاف لیڈر کو اپنا ان داتا مان کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اسے کندھوں پر بٹھاتے، اس کے لیے نعرے لگاتے، اس کے جلسوں میں دریاں بچھاتے، شہر کی دیواروں پر اس کے پوسٹر لگاتے اور ہر ایسا گندا کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں جس سے ہمارے وجود کی تذلیل و توہین ہوتی ہو۔ یہ وہ بدترین صورت حال ہے جس میں گھر کر ہم نے اپنا ناس ہی مار دیا ہے۔
دوسری حماقت بھی پہلی حماقت سے بڑی ہے اور وہ ہے ایسی بے ہناہ عقیدت جو اپنے لیڈر سے وابستہ کر کے اسے انسان نہیں رہنے دیتے اور اسے دیوتا بنا دیتے ہیں۔ ہم اسے ہر غلطی، ہر گناہ سے پاک اور پوتر سمجھتے ہیں۔ اس کی غلطی اور گناہ کو کوئی بتانا چاہے تو ہم لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ لیڈر کے گناہ کو ہم اپنا گناہ سمجھ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہ گار کون تسلیم کرتا ہے؟
تیسری حماقت یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری نجات کسی نجات دہندہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اپنی نجات میں خود ہمارے اعمال و معاملات کا کوئی دخل نہیں۔ ہمیں دوسروں کے مظالم تو نظر آتے ہیں، اپنے ظلم پہ ہماری نگاہ نہیں جاتی جو بحیثیت ملازم، بحیثیت تاجر، بحیثیت شہری، بحیثیت باپ، شوہر، بھائی اور بہ حیثیت پڑوسی ہم سے سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے ظلم ان حیثیتوں میں ہم سے سرزد ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارا ظلم ان حیثیتوں میں ہم سے سرزد ہوتا ہے اور پھر وہی ظلم پلٹ کر ہم تک پہنچتا رہتا ہے اور جب یہ ظلم ہم ہر ٹوٹتا ہے تو ہم حکومت اور نظام کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ مکافات عمل ہے تو جب تک ہم ٹھیک نہیں ہوں گے، نظام کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟
چوتھی حماقت یہ ۔۔۔۔ مگر حماقتوں کے گنوانے کا فایدہ کیا ہے؟ جو حماقتیں گنوا دی گئی ہیں، اگر یہی درست ہو جائیں تو سمجھئے کہ سارے دلدر دور ہو گئے۔ اس کو کہتے ہیں، نظام ملکی کو درست کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا۔ تاریکی کو دور کرنے میں اپنے حصے کی شمع جلانا۔ جب تک یہ نہ ہو گا، کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔ ہدایت کی کوئی شمع نہ جلے گی، کوئی نجات دہندہ آکر ہمارے لیے یہ مقدس فریضہ ادا نہ کرے گا جو کرنا ہے، ہمیں ہی کرنا ہے، ہمارے کرنے ہی سے ٹھیک ہونا ہے جو کچھ بھی ٹھیک ہونا ہے۔
اپنے آپ کو ٹھیک کرو تو رفتہ’ رفتہ’ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ہر وابستگی سے خود کو علیحدہ کر کے اپنا کام دیانت داری سے ادا کرو۔ کوئی وجہ نہیں کہ وہ سب کچھ نہ ہو جائے جو ہم چاہتے ہیں یعنی ظلم کے نظام سے نجات۔