اب جہاں تک معاملہ عادلانہ نظام زندگی اور اس کے نفاذ کا ہے۔ تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت مغرب میں اور خود ہمارے ہاں کون سے نظام ہائے زندگی نافذ ہیں اور ان میں فرق و تضاد کیا کیا اور کون کون سے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے درج ذیل سطور پڑھیں:
’’اس وقت دنیا میں زیادہ تر تین قسم کے نظامِ حکومت پائے جاتے ہیں۔ جمہوریت، بادشاہت اور فوجی ڈکٹیٹر شپ۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں عملاً جمہوریت نافذ ہے لیکن ماضی کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے بادشاہت کو بھی باقی رکھا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کی حیثیت رسمی ہے __ ان ملکوں میں برطانیہ، کینیڈا، جاپان اور ڈنمارک شامل ہیں۔ آج ہم اس موضوع پر غور کریں گے کہ ان مذکورہ ملکوں نے جمہوریت کے ساتھ بادشاہت کی آمیزش کو کیوں ضروری سمجھا۔ اس سوال پرغور کرنا چاہیے اس لیے کہ جس خطّے میں ہمارا ملک واقع ہے، یہ بھی صدیوں تک بادشاہت کے تابع رہا ہے۔ اس بادشاہت سے نجات انگریزوں کے آنے کے بعد ملی۔ اور انگریزوں ہی نے دوسرے ملکوں کی طرح ہمارے ملک کو بھی جمہوریت سے آشنا کیا۔ جمہوری تصّور ہمارے لیے بالکل ایک نیا تصوّر تھا۔ اس کے باوجود کہ اس جمہوری تصوّر اور اس کے نفاذ پر بہت سے اعتراضات اور سوالات اٹھائے گئے لیکن جمہوری نظام یہاں نافذ ہوکر رہا۔ جس پہلو پر غور نہیں کیا گیا، وہ یہ تھا کہ انگریزوں نے خود اپنے ملک برطانیہ میں تو جمہوریت کے ساتھ بادشاہت کو رسمی حیثیت میں باقی رکھا۔ لیکن ہندوستان میں مغل بادشاہت کا گلا گھونٹا تو ایسا کہ بادشاہت کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ بادشاہت کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوا اسے انھوں نے برطانوی ماڈل کی جمہوریت کو یہاں نافذ کرکے پُر کیا۔ انھوں نے ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا اور نہ سوچا کہ برطانیہ اور ہندوستان کسی طرح بھی ایک جیسے ملک نہ تھے۔ دونوں ملکوں میں کوئی مماثلت اور مشابہت نہ تھی۔ سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ برطانیہ میں انگریز ایک قوم کی حیثیت سے تھے جبکہ ہندوستان میں ایک نہیں بہت سی قومیں بستی تھیں۔ ان میں ہندو اور مسلمان دو بڑی قومیں تھیں جن میں ہر سطح پر اختلافات پائے جاتے تھے اور یہی اختلافات تھے جنھوں نے مسلمانوں میں دو قومی نظریے کو جنم دیا۔ اور اسی نظریے کی بنیاد پر انھوں نے اپنا علاحدہ وطن حاصل کیا۔ آزادی کے بعد ماضی کا تسلسل جاری رکھنے کےلیے انگریزوں کی تجویز تھی کہ دونوں ملکوں کا ایک گورنر جنرل ہونا چاہیے یعنی دونوں ملک آزاد ہوکر ماضی سے رشتہ قائم رکھنے کے لیے ایک انگریز گورنر جنرل کے ماتحت اپنا سیاسی نظام قائم کریں اور اسے چلائیں۔ ہندوستان نے اس تجویز کو مان لیا۔ پاکستان نے مختلف وجوہ سے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ بھات میں جیسی کیسی بھی سہی مگر جمہوریت نافذ ہوگئی۔ مذہبی، لسانی، ثقافتی اختلافات کے باوجود وہاں دستور بھی بن گیا۔ ہم ملک بننے کے تھوڑی ہی مدّت بعد سیاسی بحران کا شکار ہوگئے جمہوریت کی جگہ فوجی آمریت مُسلط ہوگئی۔ ہم ابھی تک اپنے سیاسی مسائل سلجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ فوج کی مداخلت کا خطرہ اب بھی موجود ہے اور اس کی وجہ سیاست دانوں اور جمہوری حکمرانوں کی ناکامی ہے جو اس خطرے کو آواز دیتی رہتی ہے۔
اب آیئے اس بات کی طرف کہ دنیا کے جن ملکوں میں جمہوریت کا تجربہ کامیابی سے چل رہا ہے وہاں رسمی حیثیت میں بادشاہت کو برقرار رکھا گیا تو نتائج مثبت آئے اور ملک کے اندر جمہوری نظام نے بادشاہت کے سائے تلے جڑ پکڑ لیا۔ ان میں ایک ملک تو جاپان ہی ہے جو ہمارے برّاعظم میں واقع ہے۔ باقی ملک یورپ اور مغربی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً کینیڈا جو فلاحی ریاست ہے۔ برطانیہ کا تذکرہ ہم پیچھے کر آئے ہیں۔ ڈنمارک بھی ایسا ہی ملک ہے جہاں رسمی بادشاہت کے ساتھ جمہوریت نافذ ہے اور نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔ ہمارا مقصد یہاں ساری دنیا کے سارے ملکوں کے نظام حکومت کا جائزہ لینا نہیں ہے۔ ان چند ملکوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس کے ذریعے ہم اپنے ملک کے نظام حکومت کی ناکامی کو سمجھ سکیں۔
جب بھی کوئی ملک کسی ایک خاص طرز حکومت کو اپنا لیتا ہے اور وہ طرز حکومت صدیوں تک اس ملک میں رائج رہتا ہے تو اس ملک کے عوام اس طرز حکومت کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ان کا ذہن اُن کی نفسیات، عادات، تہذیب و ثقافت، تعلیمی اور مذہبی تصورات یہ سب کے سب اس خاص طرز حکومت کے تحت پروان چڑھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ اسی پیراڈائم میں سوچنے اور کچھ بھی کرنے کی عادت کو اپنا لیتے ہیں۔ لہٰذا جب طرز حکومت تبدیل ہو اور نیا سیاسی نظام نافذ کیا جائے تو ماضی کی سیاسی میراث کو نئے نظام میں بھی جگہ دے دی جاتی ہے تاکہ اجتماعی شعور میں خلا پیدا نہ ہو اور عوام ماضی سے جڑے رہیں۔ ہندوستان میں معاملہ برعکس ہوا۔ ہندوستان میں آخری حکومت مغل بادشاہ کی تھی __ اس بادشاہت نے جاگیردارانہ نظام کو پروان چڑھایا۔ جاگیرداری بھی بادشاہت ہی جیسی تھی۔ ایک وسیع و عریض خطّے اور زمینوںکا مالک ہونا اور کسانوں اور کھیت میں کام کرنے والے مزارعوں کو غلام بنائے رکھنا اور ان سے ویسا ہی ظالمانہ اور وحشیانہ سلوک روا رکھنا جاگیرداروں کا مزاج رہا۔ اسی طرح مغل بادشاہ کے تسلّط سے نکل کر جو صوبے اور ریاستیں آزاد و خود مختار ہوئے وہاں بھی نوابوں اور راجائوں کا اپنی رعیّت سے کچھ ایسا ہی معاملہ رہا کہ وہ آقا ہیں اور رعیّت غلام ہے۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان سے بادشاہت کا خاتمہ تو کر دیا لیکن جاگیرداری، وڈیرہ شاہی خوانین اور نوابوں و راجائوں کو ان کے اختیارات اور وسائل کے ساتھ باقی رکھا۔ ایسا انھوں نے سیاسی مصلحت و مفاد میں کیا۔ ہندوستان جیسے وسیع و عریض خطّے پر مٹھی بھر انگریزوں کا قابض ہونا اور حکومت کرنا اسی طرح ممکن تھا کہ وہ جاگیرداروں اور دیسی ریاستوں کے نوابوں اور راجائوں کو اپنے ساتھ نتھّی کر لیں۔ انگریزوں نے یہ نہیں سوچا کہ جاگیرداری اور ریاستی حکمرانوں کی موجودگی میں جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذ ہو ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ جمہوریت عام آدمی کی اہمیت کو تسلیم کرکے اس کے فلاح وبہبود کے تصوّر سے وابستہ ہوتی ہے اور جاگیرداری اور ریاستی نظام میں عام آدمی کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ جب ہندوستان تقسیم ہوا تو چند ایک ریاستوںکو چھوڑ کر تقریباً تمام ہی ریاستیں (جن کی تعداد چھ سو سے زیادہ تھی۔) زیادہ تر ہندوستان میں اور دو ایک پاکستان میں ضم ہوگئیں۔ تین ریاستیں جو بچ گئیں، حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور کشمیر، اُنھیں ہندوستان زور زبردستی سے ہڑپ کر گیا۔ ہندوستان میں جمہوریت کا تجربہ اگر ایک عرصے تک کامیابی سے ہمکنار ہوا تو اس کی ایک وجہ تو وہ مخلص اور سمجھدار قیادت تھی جس نے فوراً ہی جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا اور دستور بناکر اسے نافذ کر دیا اور یوں وہاں جمہوریت کی گاڑی چل پڑی۔ ہمارے ہاں قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد محلّاتی سازشوں کا جو آغاز ہوا وہ فوجی راج پہ جاکے ختم ہوا۔ ہمارے حکمرانوں نے جاگیرداری کو برقرار رکھا اور دستور بنا تو اسے پامال کیا اور یوں جمہوریت آج بھی ہمارے ہاں مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہی ہے۔ بادشاہت ہمارے ہاں رسمی طور پر نافذ نہیں کی گئی لیکن انداز حکومت کرنے کا بادشاہوں ہی جیسا رہا اور بادشاہوں جیسا ہی ہے۔ جدّی پُشتی وراثت کاچلن سیاست میں عام ہے۔ بادشاہت میں اگر بادشاہ مر گیا بادشاہ زندہ باد ہے تو یہاں بھی باپ مر گیا تو بیٹا زندہ باد یا بیٹی زندہ باد ہی رائج ہے۔ تو کیا اگر ہم بھی جاپان اور کینیڈا اور ڈنمارک کی طرح جمہوریت کے ساتھ رسمی بادشاہت کو نتھّی کر لیتے تو سیاسی بھنّور سے نکل سکتے تھے؟ اس پر سوچنا آپ کا کام ہے۔