کورونا وائرس کی وبا نے عالمی طاقتوں کو لرزہ براندام کر دیا، ان کی معیشتوں کو ناقابل برداشت حد تک صدمہ پہنچایا۔ ابھی تک اس وبا کے اثرات باقی ہیں۔ عبادت گاہوں کی ویرانی بتاتی ہے کہ خداوند تعالیٰ کو جس نے یہ وبا بھیجی، اس کی بھی پروا نہیں کہ انسان جو اس کے آگے سربسجود ہوتا تھا، اب وہ ان عبادت گاہوں میں اس کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے یا نہیں۔ مسجدیں، مندر، گرد وارے، چرچ یہاں تک کہ خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی سبھی اس ویرانی کی زد میں آئے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اگر دنیا کا نظام ظالمانہ اور انسانیت دشمن ہے تو اس کو اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ ایک عادلانہ نظام نافذ کرنا ہی خدا کو مطلوب ہے۔ چاہے اس کے لیے روایتی مذہبی نظام کو زیر و زبر ہی اسے کیوں نہ کرنا پڑے۔ عبادت گاہوں میں کی جانے والی عبادتیں انسانوں کے نزدیک کتنی ہی متبرک و مقدس ہوں، خدا کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ خدا اب دنیا کو ظلم و استحصال کی آماجگاہ بنتے دیکھنے پر ذرا بھی تیار نہیں۔ تو پھر سوال وہی ہے کہ عادلانہ نظام کیسے آئے؟ اور کون لائے؟ یہ سوال اس طبقے کے سوچنے کا ہے جس کے ہاتھوں میں دنیا کا نظام ہے۔ خدا مسلمانوں، ہندوئوں، عیسائیوں، یہودیوں اور سکھوں کے پیرائے میں نہیں سوچتا۔ وہ انسانوں کا خالق ہے اور وہ انسانی ڈسکورس ہی کے پیرائے میں سوچتا ہے۔ انسانیت کی نجات کس میں ہے؟ سارے انسان برابر ہیں، ان کے دکھ سکھ ایک ہیں، ان کی ضرورتوں اور حاجتوں میں کوئی لمبا چوڑا فرق نہیں تو کیوں نہ انھیں ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا جائے۔ مذہب، رنگ و نسل اور زبان و ثقافت کے نام پہ انھیں گروہوں، قبیلوں، وطینت اور عقیدے کے نام پر بانٹ دینا اور پھر اسی بنیاد پر ان سے معاملہ کرنا آج سے صدیوں پہلے درست ہو تو ہو لیکن اب درست نہیں۔ کیوں درست نہیں۔ اس لیے کہ دنیا اب سمٹ سکڑ کر بہت چھوٹی ہوگئی ہے۔ عملاً سارے امتیازات مٹ گئے ہیں۔ ایک ہی عالمی نظام ساری دنیا پر مسلط ہے __ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف ہو یا کے ایف سی، میک ڈونلڈ ہوں یا ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں یا ٹیکنالوجی کا استعمال ہو، ساری دنیا یا دنیا کے اکثر ممالک ان ہی کے زیر سایہ ہیں تو پھر جو بھی گڑبڑ ہے وہ اسی نظام کےاندر ہے اس __ نظام کو تاراج کرنا ابھی انسانی اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ کرونا وائر س کی وبا نے آکر اس نظام کے اندر جو چھید کیے ہیں، ابھی اس کا پوری طرح اندازہ نہیں ہو رہا ہے لیکن جلد یا بدیر صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے گا۔
انسانی پیرا ڈائم میں سوچنا مذہبی طبقے کو پسند نہیں۔ سارے انسان برابر ہیں اور ایک ہی آدم کی اولاد ہیں، وہ اس پیرائے میں بھی نہیں سوچتے۔ ہم افضل ہیں، نجات ہم ہی کو ملے گی۔ یہ اندازِ فکر ہے مذہبی طبقے کا۔ اب انھیں یہ کون بتائے کہ اپنی سربلندی اور سرخروئی کے دعوے خدا کو کتنے ناپسند ہیں اور اسے کتنی نفرت ہے اپنی بڑائی کے دعووں سے۔ اس لیے اس نے دکھا دیا کہ عبادت گاہوں کی ویرانی کی بھی اسے پروا نہیں۔ مگر انسان، تھڑڈلا انسان کب اپنے معاملات کو خدائی نقطۂ نظر سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔ اگر وہ خدائی زاویۂ نگاہ کو اپنا لے تو دنیا کے نوّے فیصد مسائل تو اسی سے حل ہو جائیں۔ خدائی زاویۂ نگاہ کچھ نہیں اس کے سوا کہ انسان، صرف انسان ہے۔ اسی انسان کو بہتر انسان بنانے کے لیے خدا نے ڈسپلن اتارے اور نبیوں اور رسولوں کو بھیجا۔ لیکن انسانیت کو نجات نہیں ملی۔ اب اگر خدا چاہتا ہے کہ انسانیت کے گلے سے ظلم کے طوق کو اتار پھینکا جائے اور دنیا کو کم سے کم ایک مرتبہ جنّت ارضی بنا دیا جائے تو اس راہ کی رکاوٹ کون ہے؟ خود انسان یا انسانوں کا وہ طبقہ جس کے ہاتھوں میں دنیا کا نظام ہے۔ وہ کوئی ایک عالمی طاقت کے پروردہ ہوں یا مختلف طاقتوں کے آلۂ کار ہوں۔ خدا کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ کچھ ہو کے رہے گا جو خدا کے پیش نظر ہے۔ اور خدا کے پیش نظر یہی ہے کہ ایک عالمی مساوات اور عدل و انصاف کی دنیا آماجگاہ بنے۔ ایسا کرنا خدا کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ دنیا پہلے بھی دو عالمی جنگوں کا مزہ چکھ چکی ہے، ایک اور تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے اور اس میں انسان تباہ و برباد ہو جائے تو باقی جو بچ جائیں وہ دنیا کی ازسرنو تعمیر کرکے دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں لیکن خدا کو انسانی لاشوں پر جنّت ارضی کھڑی کرنا منظور نہیں __ ورنہ ایسا ہو چکا ہوتا۔