کورونا کی عالم گیر وبا نے اپنے منحوس پر عالم انسانیت پر پھیلائے تو اہل فکر نے اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ ایک خدا پرست معاشرے کا رد عمل اس پر کیسا ہونا چاہئے، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اس نازک موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ سلسلہ مضامین پھیل کر ایک کتاب کی شکل اختیار کر گیا جو جلد ہی ‘ خدا، کورونا وائرس اور عادلانہ نظام زندگی’ کے عنوان سے زیور طبع سے آراستہ ہوگا۔ ‘آوازہ’ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کی اشاعت سے قبل ہی اسے یہ فکر انگیز مضامین شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے ‘آوازہ’ تہہ دل سے ان کا شکر گزار ہے۔
اہل مغرب اور اہل مشرق خصوصاً مسلمانوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟ رنگ و نسل کے علاوہ اصلی فرق عقیدے اور ایمانیات کا ہے۔ مسلمان خود کو اہلِ ایمان کہتے ہیں۔ اہلِ مغرب میں بھی مذہبی لوگ ہیں جو عیسائیت یا یہودیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن عموماً اہلِ مغرب سے مراد ان لوگوں سے ہوتی ہے جو کسی مابعدالطبیعاتی دنیا پر یقین نہیں رکھتے۔ مادّہ پرست ہوتے ہیں اور دنیا کی زندگی کو کُل زندگی تصّور کرتے ہیں۔ اس عقیدے سے ایک فائدہ انھیں یہ پہنچا کہ جب دنیا کی زندگی ہی کُل زندگی ہے تو پھر اس زندگی کو اچھا ہونا چاہیے۔ اور زندگی اچھی اسی وقت ہوسکتی ہے جب ہم خود اچھے ہوں۔ جھوٹ، مکر، دھوکا، بددیانتی، منافقت اور اذّیت دہی یہ بری چیزیں اور خراب عادتیں ہیں، اس سے معاشرے میں بے چینی اور انتشار پیدا ہوتے ہیں اور زندگی سے امن و سکون اور خوشیاں اور لذّتیں چھن جاتی ہیں۔ اس لیے ان بری عادتوں سے ہمیں دُور رہنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھئے:
ظاہر ہے یہ اخلاقی اقدار اہل مغرب نے دو اور دوچار کی طرح نہیں اپنایا بلکہ اس میں اچھا خاصا وقت لگا۔ ان کے مفکّروں اور فلسفیوں نے مصلحوں اور دانش وروں نے مختلف علمی اور فلسفیانہ تحریکات کے ذریعے ان خیالات و احساسات کو اہل مغرب کے شعور میں رچا بسا دیا۔ اس کی تفصیل میں کسی کو جانا ہو تو مغرب میں اخلاق کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان کا مطالعہ کرلے۔ اخلاق کے موضوع پر جب مباحثے ہوئے تو عملیت پسندی (Paragmatism) اور افادیت پسندی (Utiliterianism) کے نقطہ ہائے نظر بھی سامنے آئے۔ جب اخلاق کے موضوع پر بحث میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ہم سچ کیوں بولیں اور جھوٹ سے گریز کیوں کریں؟ تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس لیے کہ سچائی میں نجات اور جھوٹ میں ہلاکت ہے۔ تو اخلاق کا معیار یہ ٹھہرا کہ جو چیز انسان کے لیے آخری نتیجے میں نقصان دہ ہے، اسے چھوڑ دینا چاہیے اور جو فائدہ مند ہو، اسے اختیار کر لینا چاہیے۔ یوں ان تصورات کی اہل مغرب کے ذہنوں میں آبیاری ہوئی اور انھوں نے ان ہی اخلاقی اقدار کو اپنا لیا جو بہت پہلے مختلف مذاہب پیش کرچکے تھے۔ یہ الگ بات کہ مشرق میں ان موضوعات پر بحثیں نہیں ہوئیں بلکہ اخلاقی اقدار کو بغیر چوں چرا کیے اس لیے قبول کر لیا گیا کہ کتاب یہی کہتی تھیں اور رسول نے یہی حکم دیا تھا۔ تو اخلاقی اقدار کے معاملے میں اہلِ مغرب مسلمانوں سے اس طرح مختلف ہوگئے کہ اخلاقی اقدار کو انھوں نے کوئی آسمانی حکم سمجھ کر اختیار نہیں کیا بلکہ اسے عقل کی سطح پر مفید جان کر قبول کیا۔ مسلمانوں میں رسول کی حیات طیبہ میں تو ان کے فیضِ صحبت سے صحابۂ کرام نے ان ہی اخلاقی تعلیمات کو دل و جان سے قبول کیا، جو رسول نے انھیں دیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی تعلیمات اور اخلاقی اقدار نے اپنا اثر کھونا شروع کر دیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ دین اور دنیا میں فاصلے بڑھتے گئے۔ مذہبی طبقہ اور دنیا دار طبقہ دو الگ الگ خانوں میں بٹ کر زندگی گزارنے لگا۔ حکومت اور خانقا ہی نظام ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے جس کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ دنیا کو برتنے اور دنیا میں رہنے سہنے کے دو مختلف زاویۂ نظر تھے جن میں سے ایک کو قبول کرنے کے معنی دوسرے کو چھوڑنا یا رد کرنا تھا۔ انیسویں صدی تک آتے آتے مغرب کی بالادستی نے تہذیب مغرب کو مسلم دنیا پر غالب کر دیا۔ اس نئی صورت حال نے مسلمانوں میں الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ مسلمانوں کے اندر جو جدید تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوا، اس کے سامنے مذہب اور الہیات فرسودہ چیز ٹھہری اور موجود زندگی اور اس میں ترّقی کرنا اور عیش و آرام کا حصول ہی مقصدِ زندگی بن گیا۔ یوں مسلمان کہنے کو تو مسلمان تھے لیکن اپنے اندازِ زیست اور زاویہ نگاہ کے حوالے سے مغربی تہذیب کے نقّال بن گئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علما اور اسکالروں کی کوششوں سے الحاد و تشکیک کی وہ فضا تو ختم ہوگئی لیکن تہذیبِ مغرب سے مرعوبیت اور ان کے چلن اور رہن سہن کو اس درجہ قبول کر لیا گیا ہے کہ اسے مکمّل طور پر چھوڑنا اور ان سے نجات حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے نے مغرب سے لباس، زبان اور کلچر تو مستعار لے لیا لیکن جن اخلاقی اقدار پہ مغرب کے لوگ عامل رہے یا جو علمی اورتحقیقی تجسّس ان کے اندر پایا جاتا ہے، ان خوبیوں کو اس نقّال طبقے نے اختیار کرنے میں دل چسپی نہیں دکھائی۔ اس کی وجہ غالباً یہ رہی کہ مغربی تہذیب کو ہمارے لوگوں نے ایک استعماری نظام کے ماتحت رہ کر قبول کیا اور یہ استعماری نظام ظلم و استحصال اور مکر و فریب اور سازشوں سے عبارت رہا تو تہذیبِ مغرب کے اثرات کو اسی طبقے نے قبول کیا جو اخلاقی اعتبار سے کھوکھلے اور مفاد پرست تھے۔یہ طبقہ مغربی استعمار کو اس خطّے میں مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے ان کا دست و بازو بن گیا۔ تو ایسے غدّاروں سے اس کی کیا توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ تہذیبِ مغرب کی صالح اقدار کو قبول کرکے ان کے بہتر حصّے کی نمائندگی کرے گا۔
مشرق و مغرب کی آویزش کی بحث اب بھی اٹھائی جاتی ہے اور تہذیبوں کے تصادم کا فلسفہ بہت سے سوالوں پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن جس جدید ترین دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں اور دنیا کرونا وائرس کے زیر اثر جس طرح بدل چکی ہے کہ اب نہیں لگتا کہ ان بحثوں کے لیے یہ کوئی موزوں وقت ہے۔ اب پوری انسانیت کی نجات کا سوال ہے جو مُنہ کھولے کھڑا ہے اور تقاضا کر رہا ہے کہ ایک نیا تصّور زندگی ایسا سامنے آئے جس میں پوری انسانیت کے دکھوں کا مرہم موجود ہو۔ اب مغرب و مشرق کے فرق و امتیاز پر غور کرنے کا وقت نہیں رہا۔ اب تو یہی سوال اہم ہے کہ کوئی ایسا نظامِ زندگی وضع کیا جائے جس میں دونوں تہذیبوں کو سمو کر ان کی مجموعی نجات کی فکر کی جائے۔
یہ کس طرح ممکن ہے؟
ممکن ہے بھی یا نہیں