ادب اور تحقیق سے متعلق اداروں کا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی کتابوں، تحقیقی مجلّوں اور رسالوں کے ذریعے قارئین کی فکری سطح کو بلند کریں اور ساتھ ہی ان کے ادبی و جمالیاتی ذوق کی تسکین کریں۔ انجمن ترقیِ اردو پاکستان کا شمار بھی اردو کی ترویج و اشاعت کرنے والے اہم اداروں میں ہوتا ہے جو 1930ء میں قائم ہوا تھا۔ یہاں سے تحقیقی، علمی و ادبی، سائنسی اور تکنیکی کتب اور تراجم کے ساتھ ساتھ تحقیقی مجلّہ ”اردو“ اور ماہ نامہ ”قومی زبان“ کا بھی اجرا کیا گیا جوکہ آج تک باباے اردو کے قائم کیے ہوئے اعلیٰ معیار کے مطابق پابندی سے اشاعت پذیر ہیں۔
انجمن ترقیِ اردو کی روایت رہی ہے کہ اردو دنیا کی مایہئ ناز شخصیات کی وفات پر اشاعتِ خاص کا اجرا کرے۔ اس کا آغاز (اگست) 1961ء میں باباے اردو مولوی عبدالحق کے انتقال پر کیا گیا۔ مولوی صاحب کی یاد میں ”قومی زبان“ کے خاص شمارے کا اہتمام کیا گیا جس میں اُس وقت کے علم و ادب کے مشاہیر جیسے قدرت اللہ شہاب، مولانا عبدالماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی، رئیس امروہوی اور نصر اللہ خاں سمیت کئی نابغہئ روزگار ہستیوں نے باباے اردو کی حیات و خدمات پر شان دار انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔ اس کے بعد1962ء، 1963، 196ء اور 1967ء کے اگست کے شمارے بھی باباے اردو ہی سے موسوم رہے۔ جولائی ۷۶۹۱ء میں شاہد احمد دہلوی کے انتقال پر مضامین شائع ہوئے، فروری اور مارچ 1969ء میں ”بیادِ غالب“ کے نام سے خصوصی شمارے شائع ہوئے۔1976ء میں قائداعظم محمد علی جناح کے صد سالہ یومِ پیدائش کے موقعے پر ”قومی زبان“ کا خصوصی نمبر شائع ہوا۔ دسمبر1982ء میں ”پیر حسام الدین راشدی نمبر“ شائع ہوا۔ جولائی 1984ء میں ”اختر حسین نمبر“، مئی ۵۸۹۱ء میں ”شبیر علی کاظمی نمبر“، فروری ۳۰۰۲ء میں انجمن ترقی اردو کے سو سال مکمل ہونے پر ”صد سالہ نمبر“ کا اجرا کیا گیا۔ اپریل 2003ء میں علامہ اقبال کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے ”اقبال نمبر“، جنوری2000ء میں ”شان الحق حقی نمبر“، فروری2000ء میں مشفق خواجہ پر ”خصوصی نمبر“، اس کے بعد جولائی2004ء میں احمد ندیم قاسمی کے گزر جانے پر تقریباً تمام مضامین ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے شائع ہوئے۔ فروری 2008ء میں قرۃ العین حیدر کی رحلت پر خاص نمبر کا اجرا ہوا۔ مئی2014ء میں ”جمیل الدین عالی نمبر“، نومبر 2016ء میں ”اسلم فرّخی نمبر“، دسمبر2018ء میں ”یوسفی نمبر“، اکتوبر 2019ء میں ”ڈاکٹر جمیل جالبی نمبر“ کی خصوصی اشاعت کی گئی۔ اس کے علاوہ علمی و ادبی شخصیات کی وفات پر وقتاً فوقتاً قومی زبان میں ”گوشے“ بھی مختص کیے گئے۔
اب ہم 2013ء میں قدم رکھ چکے ہیں اور اس سال کی پہلی اشاعت خصوصی ”غالب نمبر“ ہے جوکہ ہر عہد کے مقبول ترین شاعر نجم الدولہ، دبیر الملک، بہادر نظام جنگ مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالبؔ کے 152ویں یومِ وصال پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ غالبؔ ڈیڑھ صدی گزر جانے کے بعد بھی شاعری کے اُفق پر غالب ہیں، جن کی شاعری وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہے اور ہر زمانے کی شاعری ہے۔ اسد اللہ خاں غالب اس عہد کے ترجمان ہیں جنھوں نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہوتے ہوئے دیکھا اور سیاسی و تہذیبی بدحالی کے چشم دید گواہ رہے۔ غالب نے زندگی کی آسودہ حالی بھی دیکھی اور آخری عمر میں معاشی پریشانیوں کا بھی شکار رہے۔ غالبؔ کی شاعری کا اُفق بہت وسیع ہے۔ اُن کی فکری آزادی، فلسفہئ حیات و کائنات، ہمہ جہتی اور جدت طرازی نے اُنھیں معاصرین میں منفرد مقام عطا کیا۔ غالبؔ کے کلام نے اُن کی حیات میں ہی ناقدین و مدّاحین کی توجہ حاصل کرلی تھی مگر ان پر اصل کام بیسویں صدی میں ہوا۔ اکیسویں صدی بھی غالبؔ کے نام ہی رہی اور اب بائیسویں صدی بھی غالبؔ نام آور ہی کی ہے۔ یہی اُن کی عظمت کا اعتراف ہے کہ وہ بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کے شاعر ہیں۔
”غالب نمبر“ کی اشاعت کے لیے ہم اپنے مضمون نگاروں کے ممنون ہیں جنھوں نے نہایت فراخ دلی سے ہمیں اپنے رشحاتِ قلم سے نوازا۔ ان میں دنیاے ادب کے وہ سرخیل بھی شامل ہیں جو فی زمانہ اردو کی سربلندی اور ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی ایک مسلمہ شناخت رکھتے ہیں۔
اس شمارے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ تقریباً تمام مضامین غیرمطبوعہ ہوں۔ موضوعات کے اعتبار سے قارئین کو تنوع اور انفرادیت نظر آئے گی۔ کچھ مقالے تاثراتی ہیں اور کچھ تحقیقی۔ ہر مقالہ نگار نے اپنی مخصوص فکر اور اسلوب کے مطابق غالبؔ پر اظہارِخیال کیا ہے۔
ہم اپنے قلمی معاونین سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اسی طرح ہمیں اپنی ادبی کاوشوں سے نوازتے رہیں گے۔