ADVERTISEMENT
فرعون یعنی قدیم مصر کے زمانوں کی لوک کہانی جس میں دو بھائیوں یعنی جھوٹ اور سچ کے مابین کشمکش کا ماجرا بیان کیا گیا ہے۔ ‘ آوازہ’ کے لیے یہ کہانی محترمہ ڈاکٹر ولا جمال العسیلی نے فرعون کی عہد کی یہ کہانی قدیم عربی سے اردو میں منتقل کی ہے۔ فرعون کے زمانے کی اس کہانی نیکی اور بدی کی ازلی کشمکش کے علاوہ مصر کی روایتی ذہانت، دانش مندی فرعون زمانے کی تہذیبی روایات بھی سامنے آتی ہیں۔
——–
جھوٹ اپنے بھائی سچ کو ایک جال میں پھنسانا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنا خنجر اس کے پاس امانت کے طور پر چھوڑ دیا۔ پھر (جھوٹ) خنجر چرانے میں کامیاب ہو گیا۔ جب اس نے اپنے بھائی (سچ) سے خنجر کے بارے میں پوچھا تو (سچ) نے خنجر کے کھونے کے لئے اپنے بھائی (جھوٹ) سے معافی مانگی۔ لیکن (جھوٹ) نے اس کا عذر قبول نہیں کیا اور دیوتاؤں سے شکایت کی اور دعویٰ کیا کہ اس کا خنجر بہت بڑا ہے۔ پہاڑ کی اونچائی تک اور اس کی مٹھی ایک درخت کی بلندی تک ہے۔ دیوتاؤں نے حکم دے کر (جھوٹ) سے خنجر کو معاوضہ دینے کی تجویز پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ جھوٹ نے اپنے بھائی (سچ) کی آنکھوں کو اندھا کرنے اور اپنے گھر پر ایک اندھا دربان مقرر کرنے کا مشورہ دیا تو دیوتا راضی ہو گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
مقررہ مدت کے بعد سچ جھوٹ کے دروازے پر پہرے دار کے طور پر کھڑا رہا۔ اس کے باوجود جب (جھوٹ) نےاس میں صبر و تحمل کی خوبی پائی تو اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کے اپنے دو غلاموں کو حکم دیا کہ اسے بھوکے شیر کے پاس پھینک دیں تاکہ اسے کھا جائے۔ لیکن (سچ) کی شرافت نے اسے بچا لیا۔ کیوں کہ جن دو غلاموں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی، انہوں نے (جھوٹ) کے حکم پر عمل نہ کیا۔ دونوں نے اسے روٹی اور پانی دیا اور جھاڑی کی طرف بھاگ گئے۔ البتہ دونوں نے (جھوٹ) کو بتایا کہ شیر اسے کھا گیا ہے۔
سچ جنگل میں اکیلا رہنے لگا۔ کچھ عرصہ زندگی اسی طرح گزاری۔ ایک دن ایک خوبصورت عورت نے اسے دیکھا اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اس سے محبت کر کے اس سے شادی کر لی۔ پھر اسے اپنے گھر کے قریب ایک گھر میں رکھا۔ تاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ نہ چلے۔ ان کے یہاں ایک صحت مند اور ذہین بیٹا پیدا ہوا۔ وہ پڑھنے لکھنے میں ماہر تھا۔ اس نے ایک بہادر اور ذہین شہسوار بننے کے لیے تمام مارشل آرٹس میں بھی مہارت حاصل کی۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس نے اپنی ماں سےاپنے باپ کے بارے میں پوچھا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ اس کا والد وہ اندھا دربان ہے۔ جب اسے اپنے باپ کی کہانی سمجھ آئی تو اس نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس نے ایک بیل خرید کر اسے اپنے چچا (جھوٹ) کے چرواہے میں سے ایک کو دے دیا۔ مقصد یہ تھا کہ (جھوٹ) کی بھیڑ بکریوں کے درمیان ایک معمولی رقم کے عوض اس کی پرورش ہو۔ جب تک کہ چچا (جھوٹ) اپنے سفر سے واپس آجائے۔
چونکہ بیل بڑا اور خوبصورت تھا۔ اس لیے جب (جھوٹ) نے بڑے ہوئے بیل کو دیکھا تو اسے بہت اچھا لگا۔ کھانے کے لئے اس نے بیل کو ذبح کر دیا۔ جب (سچ) کے بیٹے کو بات کا علم ہوا تو اس نے اپنے بیل کو واپس کرنے کے لئے دیوتاؤں سے شکایت کی۔ اس نے ان سے کہا:
‘میرے بیل کی طرح کوئی بیل نہیں ہے۔ اس کے سینگ مشرق اور مغرب کے پہاڑ تک پہنچ جاتے تھے’۔
دیوتاؤں نے اس پر مبالغہ آرائی اور جھوٹ بولنے کا الزام لگایا۔ اس پر (سچ) کے بیٹے نے دیوتاؤں سے کہا :
‘کیا تم نے پہلے ایک بڑا خنجر دیکھا ہے جو پہاڑ کی اونچائی تک اور اس کی مٹھی ایک درخت کی بلندی تک ہے؛۔
یوں اس نے اپنے چچا (جھوٹ) کو بے نقاب کر دیا۔ اور دیوتاؤں سے عدالت قائم کرنے کی گزارش کی ۔ دیوتاؤں نے ( جھوٹ) کو سو کوڑے مار کر اسے شدید زخمی کر دیا۔ اس کو آنکھوں سے اندھا کر دیا۔ اسے یہ سزا بھی دی کہ وہ اپنے کیے کے بدلے میں اپنے بھائی (سچ) کا دربان بن جائے۔
(یہ کہانی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جھوٹ کی رسی چھوٹی ہوتی ہے چاہے وہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو۔)