جدید افسانہ نگارں میں اہم نام محمد حمید شاہد کا ہے۔ ان کا تعلق افسانہ نگاروں کی اس نسل سے ہے جس نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے اوائل میں افسانہ نگاری کے فن کو اپنایا۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں پاکستانی فرد کی انفرادی شناخت اُجاگر کرنے کی کوشش کی اور ساتھ میں عصر حاضر کے حالات و واقعات اور معاشرے پر ان کے اثرات کا عکس نہایت عمدگی سے پیش کیا ہے۔ بقول افتخار عارف:
’’محمد حمید شاہد،بلاشبہ خالدہ حسین، منشایاد ، اسد محمد خان ، مظہر الاسلام، رشید امجد، مشرف احمد اور احمد جاوید کے بعداردو افسانے کے منظر نامے میں ظہور کرنے والی پیڑھی میں ایک معتبر اور نہایت لائق توجہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئےہیں۔‘‘
موضوعاتی حوالے سے حمید شاہد کے افسانے نہایت متنوع ہیں۔ ایک موضوع کو کئی سطحوں پربرت کر خیال کی جنبش اور سراسراہٹ تک کو افسانے کے متن کا حصہ بنالینے پر انہیں قدرت حاصل ہے۔ ان کے افسانے عصری حسیت کے افسانے ہیں انہوں نے اس حسیت کو تخلیقی عمل کا حصہ بناکر گرفت میں لینے کے لیے فن اور اسلوب کی سطح پرنئے تجربات کیے۔ ایک طرف اگرحمید شاہد کے ہاں سماجی، تہذیبی ، اخلاقی، سیاسی، گروہی،اور معاشی تحرک بنیادی سروکاروں میں سے ہیں تو دوسری طرف فرد کا اپنا وجود، نفسیاتی اور نفسی دبائو ، فکری ارتعاشات ،زبان اور معنی کے مباحث،تخلیقی عمل کی صورتیں ، وقت اور زماں سے جڑے ہوئے تصورات افسانے کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ حمید شاید نے اپنے افسانوں میں انسانی زندگی کے مذکورہ سے پہلو ئوں کا احاطہ کیا ہے۔ اور یہ تمام پہلو بیک وقت شاید ہی ان کے ہم عصروں میں سے کسی کے ہاں افسانے کا حصہ بنے ہوں۔ احمد ندیم قاسمی نے موضوعات کے اسی تنوع کو دیکھتے ہوئے درست کہا تھا:
’’محمد حمید شاہد کے افسانوں کے ہر کردار کو زندگی کے اثبات یا نفی، مسرت یامحرومی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان افسانوں کا ایک ایک کردار ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں کو لمحہ َ رواں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی تاریخ کا درجہ بھی دے دیا ہے۔‘‘
ہمارا سیاسی نظام بدقسمتی سے ابتدا ہی سے اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہوسکا اور سیاسی عمل کے بے ہنگم رفتار کی وجہ سے اقتدار مارشل لائوں کے سپرد زیادہ رہا ہے اور پاکستانی اردو افسانے میں پاکستان میں رونما ہونے والی ان بتدریج تبدیلیوں اور ان کے پس منظر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں مارشل لاء ہو یا جمہوریت،عوام کا درجہ خدام کا ہی رہا ہے۔ جبکہ آقا وہی ہیں صرف چہرے بدلتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے 1958 ء کے مارشل لاء سے1966ء کی عوامی تحریک اور پھر 1977ء کے مارشل لا اور 1988ء میں اسمبلیوں کی برطرفی اور پھر 1999ء کے مارشل لاء تک آمریت اور جبر و استبداد وغیرہ کا وہی ڈرامہ مختلف شکلوں اور کرداروں کے توسط سے کھیلاجارہا ہے۔ غرض اردو افسانے کا پورا تعمیری دور افسانوی روایت، ملک کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو افسانے میں سیاست اور سیاست دانوں کی غلطیوں ، بدعنوانیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کئی افسانہ نگاروں کے ہاں بالکل واضح نظر آتا ہے۔ کیونکہ ادیب اپنے عہد کے لیے لکھتا اور یہ اس کا اپنے ہم عصروں سے خطاب ہوتا ہے اور وہ اپنا ایک سیاسی یا سماجی نقطہ رکھتا ہے جس کا عکس اس کی تحریروں میں کہیں نہ کہیں ضرور نظر آتا ہے۔
حمید شاہد نے جس دور میں افسانہ لکھنا شروع کیا اور اپنی شناخت مستحکم کی وہ دور 80 ء کی دہائی تھی جس میں سماجی سیاسی و آمریتی صورت حال افسانے کا حصہ بنتی رہی اور افسانے میں کہانی بھی واپس آگئی تھی۔ حمید شاہد کے اب تک کئی افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کے افسانوں کا اولین مجموعہ’’بند آنکھوں سے پرے‘‘1994ء میں دوسرامجموعہ ’’جنم جہنم ‘‘1998ء ، تیسرا مجموعہ ’’ آدمی‘‘2003ء ،اور چوتھا مجموعہ ‘‘مرگ زار’’2004ء اس کے علاوہ ان کے افسانوں کا ایک انتخاب ‘‘ دہشت میں محبت ’’2015ء میں شا ئع ہوا۔
بیسویں صدی کے آخری بیس برسوں میں روس کو افغانستان سے پسپا ہونا پڑا تو دنیا پر ایک ہی سپر پاور سربراہی کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی دنیا تیزی سے بدلتی چلی گئی۔ اِس کے اصول اور ضابطے بدلے اور اِس کے اہداف اور معیار بدلتے چلے گئے۔ تبدیلی کے اِس پورے منظر نامے میں ہماری سیاسی معاشرتی اقدار شدید دبائو میں آئیں اور کئی مقامات پر انہدام کا عمل تیزی سے نظر آنے لگا۔ حمید شاہد نے اِس سیاسی وسماجی تہذیبی انہدام کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ یوں تو خطے کی سیاسی سماجی صورت حال کا تناظر حمید شاہد کے افسانوں کے پہلے مجموعے‘‘بند آنکھوں سے پرے’’ کے پہلے افسانے‘‘برف کا گھونسلا’’ سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے مگر ‘‘مرگ زار’’ کے افسانوں میں اس کا رنگ گہرا ہوا ہے اور موضوع کو بہت واضح طور پر مگر تخلیقی سطح پر برتنے کا رجحان ملتا ہے۔ حمید شاہد کے افسانوی مجموعہ ‘‘بند آنکھوں سے پرے’’ میں شامل سیاست سے لبریز افسانہ ‘‘ برف کا گھونسلا’’ ہے۔ جس میں نائن الیون کے پیش منظر کوبیان کیاگیاہے۔ بظاہر یہ ایک گھریلو کہانی ہے اور حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ افسانے کے اختتام پر چڑیا کے خاندان کی موت قاری کو ہلا دیتی ہے اور پورا افسانہ ایک علامت بن جاتا ہے۔ اس ضمن میں افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’میں وہیں دوزانوں بیٹھ گیا اور انگلیوں سے برف کی ڈھیری کھرچنے لگا اور جب برف کھرچ چکا تومجھے لگا ، مری نے برف کا دوشالہ نہیں کفن لپیٹ رکھاتھا۔ اس کفن میں چڑیا کے پرکھلے ہوئے تھے اور وہ ننے منے بچے اس کے پرو ں تلے دبے کب کے اپنی ماں کی طرح زندگی کی سانسیں ہار چکے تھے۔‘‘
حمید شاہد نے افسانہ ‘‘ بند آنکھوں سے پرے ’’ میں بھی سیاسی و سماجی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ اس افسانے کا موضوع برصغیر کے خاند انی اور جاگیرداری نظام کا شکنجہ بھی ہے۔ اِس سفاک نظام میں رشتے تلف ہو رہے ہیں۔ جائیداد کی خاطر باپ بیٹے کو ،بھائی بھائی کو اور چچا بھتیجے کو موت کی نیند سلا دینے سے بھی نہیں چونکتا۔ اُردو افسانہ اپنی سیاسی و سماجی صورت حال سے جڑا ہوا ہے اور جس شدت احساس سے اس نے عصری سیاسی واقعات کو موضوع بنایا ہے، اس سے گیار ہ ستمبر کا واقعہ بھی نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ حمید شاہد کے سیاست و آمریت سے مزین کئی افسانوں کا موضوع11/9 کا واقعہ اور اس کے بعد کی عالمی سیاسی صورت حال ہے اس ضمن میں افسانوی مجموعہ ‘‘مرگ زار’’ میں شامل افسانے قابل ذکر ہیں۔ جن میں سے‘‘ لوتھ’’،‘‘ سورگ میں سور’’،‘‘ مرگ زار‘‘،’’موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ’’ اور‘‘ گانٹھ’’ وغیرہ اہم ہیں۔ افسانہ ‘‘مرگ زار ’’افغانستان میں جاری وحشت ،بربریت سیاسی استحصال اور انسانی تذلیل کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ ‘‘مرگ زار ’’ میں ہلاکت آفرینی کے کئی گوشے نکلتے ہیں۔ منشایاد’’مرگ زار ’’ کے موضوع کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔
’’وہ کہانی جس پر کتاب کا نام رکھا گیا۔۔۔ اس کہانی کا موضوع جہاداور شہادت جیسا نازک مسئلہ ہے جس کی کچھ عرصہ پہلے تک کچھ اورصورت تھی اب نائن الیون اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے کچھ اور صورت بن گئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نجیبہ عارف افسانہ مرگ زار کے متعلق لکھتی ہیں:
’’مرگ زار ’’ تیزی سے رنگ بدلتی دنیا کے اس اضطراب کی نقش گری ہے جس میں وقت کے جبر میں الفاظ اپنا اعتبارہی نہیں ،مفہوم بھی کھو بیٹھتے ہیں۔‘‘
اس سیاسی شعورسے لبریز افسانہ میں عالمی سیاسی وعصری صورتحال کے علاوہ ضیاء الحق دور کی ساری منافقتیں ، استحصال اور جمہوری اقدار کی پامالی کو موضوع بنا یا گیا ہے تو دوسری طرف تقسیم ہند کے دوران برپا ہونے والے فسادات اور قتل وغارت کے واقعات کوبھی نہایت عمدگی سے علامتی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر انوار احمد:
’’مرگ زار ایک ایسا موثر افسانہ ہے جو عصری منظر نامے کے بارے میں پاکستان کے بائیں بازوکے دانشوروں کے محسوسات کو پیش کرتا ہے۔‘‘
افسانہ ‘‘سورگ میں سور ’’ حمید شاہد کے ان افسانوں میں شامل ہے ،جوسیاسی شعورکے موضوع پر لکھے گئے کامیاب اور نمایاں ترین افسانے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس افسانے میں گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد عالمی استعمار کی سازشوں اور ملکی سیاست و معیشت سے پردہ اٹھایا گیا ہے ، افسانے میں مصنف نے بکریوں ، کتوں اور سوروں کی علامت مشرق اور مغرب کے حوالے سے استعمال کی ہے اور دکھایا ہے کہ عہد حاضر میں کس طرح عالمی برادری ہماری جڑیں کھوکھلی کررہی ہے ۔ افسانہ عہد حاضر کی بڑی ’ریالٹی‘ہے وہ یہ کہ اس ملک کو سوروں نے نہیں بلکہ مادیت پسند لوگوں کے رویوں نے تباہ کیاہے۔ اس افسانے میں حمید شاہد اپنے قاری کو سیاسی جبر کی نئی معنویت سے متعارف کرواتے ہے۔ حمید شاہد نائن الیون کے واقعے سے پہلے کی صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔‘‘
’’پہلے بے بسی ضرور تھی لیکن ہمت ہی ٹوٹ جائے ایسی لاچاری اور بے کسی نہ تھی۔ نہ پھڑکی والے سال نہ آنے والے برسوں میں۔۔۔۔ اور اسی موت کے کھیل سے زندگی کاچہچہا برآمدہوجایا کرتا تھا۔۔۔‘‘
نائن الیون کے بعد کی ملکی صورت حال کے حوالے سے مصنف رقم طراز ہے:
’’اور اب یہ ہوچکا ہے کہ کتے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔۔۔ بہت زیادہ اور بہت قومی،اتنے زیادہ کہ ہمارے حصے کا رزق بھی کھاجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔لہذاہم خوف اور اندیشوں سے کانپے جاتےہیں۔‘‘
ڈاکٹر نوازش علی ‘‘سورگ کے سور ’’ کے موضوع کے متعلق کہتے ہیں:
’’افسانے کی علامتوں میں سیاست کو معیشت کے ساتھ جوڑ کرعالمی منظر نامے کو بیان کیاگیا ہے۔اس افسانے میں کہانی کی معنی کی سطح پر سیاسی، معاشرتی، عالمی اور مقامی حوالوں سے تعبیریں ممکن ہوگئی ہیں تاہم مجموعی اعتبار سے یہ افسانہ عالمی سامراج اور مقامی سامراج کے گٹھ جوڑ پر قاری ضرب لگاتا ہے۔‘‘
افسانہ ‘‘گانٹھ ’’ بھی 11/9کے بعد کی عالمی صورت حال کا عکاس ہے۔ حمید شاہد کا افسانہ ‘‘موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ’’ بھی سیاسی شعور کے تناظر کا بیان ہے۔ یہ کہانی عالمی استعمار کے خالف بلند آہنگ احتجاج بھی ہے۔ افسانے کے آغاز میں پس منظر کے طور پر افغانستان اور عراق میں اٹھنے والے شعلوں اور بربریت کے نظارے کو ُ دکھایا گیا ہے۔:
’’وہ مرگیا۔ جب نخوت کا مارا امریکا اپنے پالتو اتحادیوں کے ساتھ ساری انسانیت پر چڑھ دوڑا اور اعلٰی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر سب کو بدترین اجتماعی موت کی باڑھ پر رکھےہوئے تھا۔‘‘
افسانہ ‘‘لوتھ’’ میں حمید شاہد نے عہد حاضر کی بدلتی سیاسی کشیدگی کاعمیق مشاہدہ پیش کیا ہے۔ نائن الیون کے پس منظر میں لکھے گئے اس افسانے میں علامتی پیرائے میں عصری و ملکی سیاسی حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد ہر کہیں عدم تحفظ کا احساس پایا جانے لگا۔ بالخصوص پاکستان میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی پھوٹ پڑی۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کے نتیجے میں ہر شخص خوف ، عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار ہوگیا۔ اس سارے پس منظر کا اظہار افسانہ نگار نے’’لوتھ‘‘میں نیم علامتی انداز میں کیا ہے کہ باپ کیسے غیر ملکی ڈاکٹروں کے ہاتھوں مفلوج ہو گیا ہے۔ اپنی تاریخ اور تہذیب کا تناظر فراہم نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل صورت حال کو ڈھنگ سے نہیں سمجھ رہی ہے:
’’پہلے پہل یوں ہوا تھا کہ ٹی وی پر دونوں عمارتوں سے جہاز ٹکراتے دیکھ کر وہ بھی قہقہہ بار ہوا ۔۔۔اورہوتا چلا گیا۔۔۔ حتی کہ آنکھیں کڑوے پانیوں سے بھرگئیں۔ جب باربار نشر کیا جانے واال منظر اس کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوگئیں تو وہ عجیب طرح سے سوچنے لگا تھا۔ منظر میں تو جہاز جڑواں فلک بوس ٹاورزکے بیچ گھستے تھے مگر اسے یوں لگتا جیسے وہ دونوں ٹاورز لوہے اور سیمنٹ کے نہ تھے اس کی اپنی ہڈیوں اور ماس کے بنے ہوئےتھے۔‘‘
اس افسانے کے حوالے سے علی محمد فرشی اپنے خیالات کا اظہار اِن الفاظ میں کرتے ہیں:
یہ کہانی ہماری نصف صدی کی تاریخ میں دونسلوں کے درمیان پھیلی ہوئی خلیج کا تنقیدی بصیرت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے جس میں ہمارے خواب ڈوب گئے ہیں۔‘‘
مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو حمید شاہد نے نائن الیو ن کے واقعے کو پیش منظر اور پس منظر کے ساتھ جوڑ کر اپنے تخلیقی تجربے میں شامل کیا ہے اور اس موضوع پر تخلیقی دستاویز مرتب کی ہے۔ حمید شاہد نے سیاسی شعور سے مزین افسانہ ‘‘موت کا بوسہ’’ میں سیاسی و سماجی اور معاشی پہلوءوں کی عکاسی کی ہے۔ اس افسانے میں یہ باور کروایا گیا ہے کہ انسان کائنات میں اپنی محنت کے بل بوتے پر کتنا ہی بلند مقام حاصل کرلے مگر موت کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ افسانہ نگار نے افسانے میں ایک ایسا کردار تخلیق کیا ہے جس نے اپنی محنت اور ہمت سے اپنا مقام بنایا مگر جب موت آئی تو سب کچھ بہا کر لے گئی۔علی محمد فرشی‘‘ مو ت کا بوسہ ’’ کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’موت کا بوسہ’’ میں موت مختلف عصری سماجی، سیاسی معاشی سطحوں پر روپ بدل بدل کر وار کرتی ہے اور آدمی اس کے مقابل بے بسی اوڑھ کر بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
حمید شاہد کے افسانے‘‘ آئینے میں جھانکتی لکیریں‘‘ اور ’’کتاب الاموات سے میزان عدل کا باب‘‘میں بھی سیاسی اکھاڑپچھاڑ کا تذکرہ تفصیلاً ہےتو افسانہ ‘‘آخری صفحہ کی تحریر‘‘میں ۱۹۷۷ ٗ کے مارشل لاکے بعد کی ملکی صورت حال کا جائزہ علامتی انداز میں بیان کیاہے۔ اس افسانے میں ایک ایسے قتل کا سانحہ بیان ہوتا ہے جو آدمی کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہوتا ہے۔ جبر اور انسانی حقوق کی پائمالی کے زمانے میں ملک میں بے روزگاری ،بھوک اور مفلسی بڑھ جاتی ہے تو اس کا بھیانک نتیجہ نکلتا ہے۔ اس افسانے میں بے روزگاری اور مفلسی کے سبب بننے والے منظرنامے کو یوں گرفت میں لیا گیا ہے:
’’ان کے پیٹ،اُن کی پیٹھوں نے جکڑے ہوئے تھے۔۔۔ اور زبانیں تھوڑی سے بھی نیچے لٹک آئی تھیں۔ حلقوم خشک تھے۔‘‘
ملک کے تعلیم یافتہ افراد اس ملک میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں تاکہ ملک ترقی کرے اور عوام خوش حال ہوں مگر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے ادارے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال حمید شاہد کے ہاں افسانوں کا موضوع بنتی رہی ہے اور اس افسانے میں بھی اسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ عوامی توقعات کا قتل کوئی کم سانحہ نہیں ہے کہ اسی سے معاشرہ تباہی سے دوچار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ظلم کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل کبھی اچھے نتائج نہیں دے سکتی۔ ایسی حکومتیں انصاف، احتساب اور ترقی کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتی ہیں مگر حقیقت میں معاشرے کو، اور پس ماندگی اور جہالت کی طرف دھکیل دیتی ہیں جس میں دوسروں کے حقوق کا غصب اور قتل معمول کا عمل ہو جاتا ہے۔ افسانے سے ایک اقتباس:
’’اس روز کے بعد جب بھی وہ واپس پلٹتا ،لہو کا بھرا مشکیزہ ساتھ لاتا تھا۔‘‘
حمید شاہدکے افسانوں میں سیاسی شعورکا رحجان نمایاں ہے۔ ان کے افسانوی مجموعہ’’دہشت میں محبت‘‘کے افسانوں میں ۹ ستمبر کے واقعے اورموجودہ سیاسی و سماجی حالات ، سیاسی استحصال کو موضوع بنایا کر سماج پر اس کے اثرات کو واضح کیا ہے۔ اس حوالے سے حمید شاہد کے افسانے’’ایک نئی زرگزشت‘‘، ’’جنگ کے موسم میں محبت کی تصویر نہیں بنتی‘‘وغیرہ اہم ہیں۔ وہ ایک تلخ حقیقت نگار بھی ہیں۔ حقیقت نگاری کی نئی شکل حمید شاہد کے ہاں ان کے افسانے ’’جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی’’ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اِس افسانے سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ا س کہانی میں کہیں بھی کوئی مقدس عمارت نہیں ہے۔ ہم بازار میں ہیں۔ بہتی ہوئی بھیڑ کے اندر۔ بازار میں دھماکے ہوتے ہیں مگر دکانیں پھر کھل جاتی ہیں۔ مسجدیں ، ان کے محراب، ان کے مینارتو ہر کہیں ہیں مگر ان سب کو اپنے ہالے میں لیتا تقدس میری کہانی میں کہیں نہیں ہے کہ یہاں مسجدوں ،خانقاہوں ،امام بارگاہوں اور دوسری مقدس عمارتوں میں جب دھماکے ہوتے ہیں تو اندر سے لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ ان عمارتوں کا جمال اور جلال ہمارے اپنوں کے بارود بندھے جسموں اور ہمارے اپنوں ہی کی لاشوں نے میری کہانی سے الگ کر دیا ہے۔‘‘
حمید شاہد اپنے افسانوں میں علامت کے ساتھ ساتھ کہانی کے عنصر کی موجودگی کے پوری طرح قائل نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں تفکر ،تجسس اور تاثر باہم یک رنگ ہوجاتے ہیں۔ ان کی علامتیں زیادہ تر لوک داستانوں ،اساطیر، مذہبی قصوں سیاسی وسماجی حالات وواقعات، اور مظاہر فطرت سے متعلق ہیں۔ بقول ڈاکٹر شفیق انجم:
’’محمد حمید شاہدزندگی کی تلخ حقیقتوں کے اظہار میں اورتجسس و حیرانی کی نئی دنیا ؤں کے انکشاف میں جذباتی نہیں ہوتے بلکہ ایک باوقار سنجیدگی اور متانت ہمہ دم اوڑھے رکھتےہیں۔‘‘
حمید شاہد نے اپنے افسانوں میں زندگی کے تجربات، مشاہدات اور مطالعے، سب کوبرتنے اور ان سے اپنے موضوعات پر مختلف جہتیں کھولتے چلے جانے کی صورتیں پیدا کی ہیں۔ یوں دنیا کے گلوبل ویلج بننے کے مضمرات ہوں ، یا نائن الیون کے بعد دہشت میں لرزتی زندگی، موت کے مختلف پہلو ہوں یا زندگی جینے کی مختلف صورتیں، شہر ی حسیت کی دیہی حسیت پر یلغارہویا سیاسی سماجی اکھاڑ پچھاڑ اور اداروں کاانہدام ہو یا فرد کا بکھرنا ان کے افسانے میں ہیں جن کی بنا پر وہ افسانے کی تاریخ میں ایک انفرادی حیثیت ومقام پر متعین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد ناصر آفریدی پی ایچ ڈی سکالر سرحد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور۔
ڈاکٹر تحسین بی بی،صدر شعبہ اردو ، ویمن یونیورسٹی،صوابی