سرکلر ریلوے کا ڈرامہ جس کی پہلی قسط آج کراچی میں پیش کی گئی مہمان اداکار تھے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد۔کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سپریم کورٹ کے احکامات پر کی جارھی ھے لیکن طرفہ تماشا یہ ھے کہ لوکل ٹرین کے روٹ پر نئے ڈبوں کی ٹرین چلاکر اس کو کراچی سرکلر ریلوے کا نام دیا جارھا ھے۔
یہ ٹرین پیپری نزد اسٹیل مل سے شروع ہوکر سٹی ریلوے اسٹیشن، آئی آئی چندریگر روڈ پر اختتام پذیر ھوگی یہ وہ روٹ ھے کہ جس پر کراچی آنے والی ھر ٹرین چلتی ھے۔ کراچی سرکلر ریلوے کا اصل ٹریک کراچی کے اندر ھے جس میں ناظم آباد، کریم آباد ، گلشن اقبال، سائٹ، اور دیگر علاقے شامل ہیں لیکن اس ٹریک پر حکومتی حلیف جماعتوں کے دور میں مکمل طور پر قبضہ کرلیا گیا ھے حد تو یہ ھے کہ گلشن اقبال گیلانی ریلوے اسٹیشن کی زمین پر بڑے بڑے پلازے حکومتی دعوں کا منہ چڑا رھے ہیں۔
ناظم آباد کے علاقے میڑک بورڈ آفس کے اسٹیشن کی زمین پر ایم کیو ایم کے سابق وفاقی وزیر بابر غوری نے صائمہ کا بلند پلازہ کھڑا کردیا ھے۔ رھی سہی کسر پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے ٹریک اور زمینوں پر قبضہ کرکے پوری کردی۔ آج وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سرکلر ریلوے کی بحالی میں پورا کردار ادا کررھی ھے۔
سوال یہ ھے کہ ایک سال کے عرصے میں کتنا ٹریک خالی کروایا جاسکا؟
سرکلر ریلوے ایک سال بعد بھی صرف مرکزی لائن پر ھی کیوں چلائی جارھی ھے؟
غیر قانونی قابضین کے خلاف کیا کاروائی ھوئی؟
کیا سرکلر ریلوے کے نام پر کراچی کو ایک بار پھر بیوقوف بنایا جارھا ھے؟
سرکلر ریلوے کی بحالی موجودہ صورتحال میں ایک فراڈ ھے اور کراچی کے عوام کو فریب دینے کی ایک اور کوشش ھے۔
اگر تحریک انصاف کراچی سے تاریخی مینڈیٹ لینے کے باوجود بھی عوام سے فراڈ کرے گی تو اس کا انجام سابقہ حکمرانوں جیسا ہی ھوگا۔