Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
پاکستانی جامعات میں علمی آزادی کے متعلق سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ
پچھلے ہفتے جامعات میں علمی آزادی کے متعلق سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ دیا ہے (خیبر میڈیکل یونیورسٹی بنام ایمل خان، سول پٹیشن نمبر 3429 آف 2021ء) لیکن اخبارات اور میڈیا پر اس کی رپورٹنگ صحیح نہیں ہوئی ہے اور اس وجہ سے لوگ اس کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس فیصلے پر چند مختصر نکات پیشِ خدمت ہیں۔
مقدمے کے حقائق
سب سے پہلے تو اس مقدمے میں حقائق پرایک نظر دوڑائیے۔
خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ایک ادارے احمد میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، پشاور، میں بی ایس پیرا میڈکس (ڈینٹل ٹیکنالوجی) کے دوسرے سمسٹر کے مضمون “انسانی نفسیات” کے امتحان میں چوتھے سمسٹر کا طالب علم ایمل خان اس الزام پر پکڑا گیا کہ اس نے ایک طالبہ کی جگہ پیپر دینے کی کوشش کی۔(چوتھے سمسٹر کے لڑکے اور دوسرے سمسٹر کی لڑکی کا کیا تعلق تھا؟ عدالت نے اس پر بحث نہیں کی کیونکہ اس کا مقدمے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔)اس لڑکے کے خلاف خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے قواعد براے امتحانات 2017ء کے تحت انضباطی کارروائی کی گئی، اسے اپنے دفاع کا پورا موقع دیا گیا اور اس کے اقرار پر کمیٹی نے 16 دسمبر 2020ء کو اسے تین سال کےلیے نااہلی کی سزا دے دی۔ اس نے اس فیصلے کے خلاف یونیورسٹی کی اپیل کمیٹی کے سامنے اپیل کی جس نے 3 فروری 2021ء کو اس سزا کو برقرار رکھا۔
ان دونوں فیصلوں کے خلاف ایمل خان نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ درخواست جمع کرائی جس نے 25 مارچ 2021ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اس کی سزا تو برقرار رکھی لیکن اس میں تخفیف کرکے نااہلی کو تین سال سے ایک سال میں تبدیل کرلیا۔ اس فیصلے کے خلاف خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، جہاں جسٹس سردار طارق مسعود خان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ 4 جنوری 2022ء کو مقدمے کی سماعت کے بعد تین رکنی بنچ نے متفقہ طور پر یونیورسٹی کی اپیل منظور کرتے ہوئے نااہلی کی سزا کو پھر سے تین سال کردیا۔ مقدمے کا فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے لکھا جس سے دیگر دو جج صاحبان نے اتفاق کیا۔
سپریم کورٹ کے سامنے فریقین کا موقف
یونیورسٹی کا موقف یہ تھا کہ ہائی کورٹ نے تخفیف کرکے غلطی کی ہے کیونکہ یونیورسٹی کے قواعد میں 3 سال سے کم سزا کی گنجائش ہی نہیں تھی اور یہ کہ یونیورسٹی نے اس سے قبل اس طرح کے مسائل میں ہمیشہ 3 سال کی سزا ہی دی ہے۔ یونیورسٹی کے وکیل کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ ہائی کورٹ نے یونیورسٹی کے اندورونی معاملات میں مداخلت کی ہے جس کی وجہ سے ڈسپلن کی پابندی کروانے کے متعلق طلبہ پر یونیورسٹی کی گرفت کمزور ہوجائے گی۔ دوسری جانب مذکورہ طالب علم، ایمل خان، خود پیش ہوا اور اس نے ایک دفعہ پھر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اقرار کیا کہ اس نے کسی اور کی جگہ امتحان دینے کی کوشش کی لیکن اس نے تخفیف اور نرمی کی درخواست کی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے یونیورسٹی کے قواعد میں مذکورہ قاعدے کا متن پیش کرکے یہ بات نوٹ کی ہے کہ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ اس جرم پر طالب علم کو “تین سال تک” کےلیے نااہل کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس جرم پر اسے “تین سال کےلیے” نااہل کیا جائے گا۔ عدالت نے واضح کیا کہ ان الفاظ کی موجودگی میں تین سال کی سزا کو ایک سال میں تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ نے یونیورسٹی کے ان قوعد کو “قانون” کہا ہے اور تصریح کی ہے کہ ہائی کورٹ قانون کے خلاف نہیں جاسکتی تھی:
The High Court has failed to appreciate that it cannot ignore the relevant law…
یہ بہت اہم نکتہ ہے اور اس پر کچھ تفصیل میں آگے پیش کروں گا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ یہاں ختم ہوسکتا تھا کیونکہ مذکورہ مقدمے کی حد تک بات پوری ہوگئی تھی، اور فیصلہ یہیں تک ہوتا تو یہ ایک عام مقدمے کا ایک عام سا فیصلہ ہوتا، لیکن سپریم کورٹ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس معاملے کی تہہ میں موجود ایک اہم مسئلے “جامعات میں علمی آزادی”کی طرف بھی توجہ کرکے اس کے متعلق چند اہم اصول بیان کیے۔ انھی اصولوں کی بنا پر اس فیصلے کی اہمیت بڑھ گئی ہےاور اس وجہ سے فیصلے کے اس حصے کی درست تفہیم بہت ضروری ہے۔
جامعات کی اندرونی خود مختاری اور اساتذہ، ملازمین اور طلبہ کے قانونی حقوق
سپریم کورٹ نے جامعات میں علمی آزادی کے موضوع پر اصول واضح کرتے ہوئے ایک طرف اس بات کو دہرایا جو بہت سارے فیصلوں میں پہلے بھی کئی بار کہی جاچکی ہے کہ جامعات کے اندرونی معاملات اور نظم و نسق کے امور میں مداخلت سے عدالتوں کو گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان فیصلوں کےلیے جامعات ہی کے پاس مطلوبہ تجربہ بھی ہوتا ہے اور مہارت بھی۔ البتہ اس اصول کے ساتھ ایک نہایت اہم شرط بھی سپریم کورٹ نے صراحت کے ساتھ ذکر کی ہے کہ جہاں جامعات کی پالیسیوں یا فیصلوں سے طلبہ کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوں یا قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو، وہاں اس اصول کا اطلاق نہیں ہوسکتا:
unless any such policy offends the fundamental rights of the students or violates any law… (para 4)
یہ شرط اتنی اہم ہے اور اتنی واضح ہے کہ اس کو الگ سے بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ نے ضروری سمجھا کہ اس کی تصریح کردے تاکہ جامعات کی انتظامیہ کو ان کی حدود کی یاددہانی ہو۔ چنانچہ آگے سپریم کورٹ نے مختلف پیرایوں میں یہ بات دہرائی اور ایک جگہ اس کے لیے of course کی ترکیب بھی استعمال کی کہ یہ تو اتنی واضح بات ہے کہ اس میں تو گویا غامدی صاحب کے الفاظ میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں!
It is, therefore, best to leave the disciplinary, administrative and policy matters of the universities or educational institutions to the professional expertise of the people running them, unless of course there is a violation of any of the fundamental rights or any law. (para 4)
Courts should step in only when there arise justiciable disputes or causes of action between the parties involving violation of the Constitution or the law. (para 7)
جامعات میں علمی آزادی کیوں ضروری ہے؟
سپریم کورٹ نے صرف اتنا ہی کہا ہوتا تو یہ بھی جامعات کی اتنظامیہ کو لگام ڈالنے کےلیے کافی تھا لیکن آگے سپریم کورٹ نے “علمی آزادی” کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی بتادیا کہ یہ آزادی نہ صرف جامعات کو، بلکہ ان جامعات کے اساتذہ، ملازمین اور طلبہ کو بھی حاصل ہو اور یہ کہ جب تک ایسا نہ ہو جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے تصورات محض خواب ہی رہیں گے اور حقیقت کا روپ نہیں دھار سکیں گے!
Democracy, human rights and the rule of law cannot become and remain a reality unless higher education institutions, and staff and students, enjoy academic freedom and institutional autonomy. (para 6)
سپریم کورٹ نے آگے یہ بھی واضح کیا کہ جامعات میں جمہوری اقدار کا فروغ اس لیے ضروری ہے کہ جمہوری اقدار اور جمہوری کلچر کے بغیر آزادی کے ساتھ تحقیق ممکن ہی نہیں، نہ صرف یہ بلکہ جامعات میں علمی آزادی یقینی بنا کر ہی معاشرے میں جمہوری اقدار فروغ پاسکیں گے:
Higher education institutions are places that have to be imbued with democratic culture, and that, in turn, helps to promote democratic values in the wider society. Universities are the playgrounds of democracy and the more freedom and independence they enjoy, the more free thinkers and leaders they will produce. (para 6)
آگے سپریم کورٹ نے مزید واضح کیا کہ جامعات کے انتظامی ، انضباطی یا علمی امور میں عدالتوں کی عدم مداخلت کا سبب یہی ہے کہ جامعات میں جمہوری اقدار اور علمی آزادی کا فروغ ہو، ورنہ جہاں جامعات قانون کی خلاف ورزی کریں گی یا بنیادی حقوق پامال کریں گی، تو وہاں عدالتوں کی مداخلت ضروری ہوجائے گی:
The academic, administrative and disciplinary autonomy of a university must be therefore, respected. (para 6)
Courts should step in only when there arise justiciable disputes or causes of action between the parties involving violation of the Constitution or the law. (para 7)
موجودہ مقدمے کے حقائق کے تناظر میں بھی سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ اگر ہائی کورٹ اس نتیجے پر پہنچتی کہ یونیورسٹی کی انضباطی کمیٹی یا اپیل کمیٹی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، تو اس صورت میں وہ مداخلت کرسکتی تھی:
In the present case, without finding that the public functionaries, i.e., the UFM Committee and the UFM Appellate Committee of the University, had acted without lawful authority in making their decisions dated 16.12.2020 and 03.02.2021, the High Court could not have interfered with and modified those decisions. (para 3)
امید ہے کہ اب اس فیصلے کی اصل اہمیت سمجھ میں آگئی ہوگی۔ اس نے جامعات کی انتظامیہ کو فری ہینڈ یا بلینک چیک نہیں دیا، بلکہ ان کے اختیار کی حدود بھی متعین کیے ہیں اور ان اختیارات کا مقصد بھی واضح کردیا ہے۔ آسان الفاظ میں، جامعات کو اندرونی خود مختاری اس مقصد کےلیے دی گئی ہے کہ جامعات بیرونی مداخلت سے بے پروا ہو کر علمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں اوراساتذہ اور طلبہ علمی آزادی کی فضا میں تحقیق کا سفر جاری رکھ سکیں تاکہ جامعات میں جمہوری اقدار پنپ سکیں اور پھر وہاں سے یہ اقدار معاشرے میں پھیل جائیں، لیکن جہاں جامعات اساتذہ یا طلبہ کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کریں گی، یا قانون کی خلاف ورزی کریں گی، وہاں عدالتوں پر لازم ہوگا کہ وہ مداخلت کرکے ان غیر قانونی اقدامات کو کالعدم کردیں۔
یونیورسٹی کے قواعد کی خلاف ورزی دراصل قانون کی خلاف ورزی ہے!
اب آئیے اس مسئلے کی طرف اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وضع کردہ قواعد کو “قانون” قرار دیا ہے اور ان قواعد کو نظرانداز کرنے پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم کردیا ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے اور جہاں بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس سے جامعات کی انتظامیہ کو تقویت ملی ہے، وہاں تھوڑی گہرائی میں جا کردیکھیں تو اس نے جامعات کی انتظامیہ کے ہاتھ پیر باندھ دیے ہیں۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پہلے دستور کی دفعہ 4 کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو۔ پھر اس نے دستور کی دفعہ 199، ذیلی دفعہ1، شق اے، ذیلی شق 2 کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ ہائی کورٹ صرف اس اقدام کو کالعدم کرسکتی تھی جو قانون کے خلاف تھا۔ پھر مزید یہ قرار دیا کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے قواعد کو قانون کی حیثیت حاصل تھی اور یونیورسٹی نے جو اقدام اس قانون کے مطابق کیا، ہائی کورٹ اسے تبدیل نہیں کرسکتی تھی:
The High Court has failed to appreciate that it cannot ignore the relevant law as everyone is to be treated in accordance with law under the constitutional command of Article 4 of the Constitution, and that under Article 199 (1)(a)(ii) of the Constitution it can declare only such act or proceeding of a public functionary to have no legal effect, which has been done or taken without lawful authority. (para 3)
آگے سپریم کورٹ نے اس بات کی مزید تصریح کی ہے کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے یہ قواعد “نیابتی قانون سازی” (delegated legislation) تھی اور اسے اس مفہوم میں قانون کی حیثیت حاصل تھی جس مفہوم میں قانون کالفظ دستور کی دفعہ 4 میں استعمال ہوا ہے:
Regulation 32(c), made by the University under its delegated legislative power, is a law within the scope of the term “law” as used in Article 4 of the Constitution… (para 8)
کیا جامعات کے کرتا دھرتا اس بات کے مضمرات سے واقف ہیں؟ انھیں تو ان کے قانونی مشیر اب تک یہ بتاتے آئے ہیں کہ یونیورسٹی کے اندر آپ نے جو قواعد بنائے ہیں، ان کو قانون کی حیثیت حاصل نہیں ہے اور ان کی خلاف ورزی پر آپ کے خلاف کوئی استاد، کوئی ملازم یا کوئی طالب علم ہائی کورٹ میں نہیں جاسکتا کیونکہ ہائی کورٹ تو صرف قانون کی خلاف ورزی پر ہی آپ کے خلاف رٹ جاری کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے “نیابتی قانون سازی” کے تصور کے تحت جامعات کے وضع کردہ قواعد کو دستور کی دفعہ 4 کے مفہوم میں قانون قرار دے کر اگر ایک طرف اس موجودہ کیس میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے اقدام کو تحفظ دیا ہے، تو دوسری طرف جامعات کو ان قواعد کی خلاف ورزی سے روک بھی دیا ہے اور ان کی خلاف ورزی پر اساتذہ، ملازمین اور طلبہ کو ہائی کورٹ میں دادرسی کےلیے رٹ پٹیشن دائر کرنے کا حق بھی دے دیا ہے!
مثال کے طور پر اسلامی یونیورسٹی کے وضع کردہ قواعد کی رو سے ضروری ہے کہ طلبہ کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے والی کمیٹی میں “کم از کم چھے ڈین یا سینیئر اساتذہ ” ہوں “جو پروفیسر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر سے کم درجے کے نہ ہوں”، لیکن اس وقت اسلامی یونیورسٹی میں اس کمیٹی میں صرف پانچ اساتذہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں اسلامی یونیورسٹی کا یہ اقدام صرف اپنے ذیلی قواعد کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
ایک اور مثال لے لیجیے۔ اسلامی یونیورسٹی کے وضع کردہ قواعد کی رو سے ڈین اور چیئرمین کو تین سال کےلیے تعینات کرنا ضروری ہے لیکن اسلامی یونیورسٹی میں اس وقت تقریبا 80 میں سے تقریبا 70 ڈین اور چیئرمین “تا حکمِ ثانی” تعینات ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی رو سے اسلامی یونیورسٹی کی یہ تعیناتیاں بھی صرف ذیلی قواعد کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ قانون کی خلاف ورزی ہیں۔
اور جب اتنی بات سمجھ میں آگئی ہے، تو اس سوال پر بھی غور کرلیں کہ کیا ان عہدوں پر، جن کےلیے قانون نے باقاعدہ مدت مقرر کی ہے، ایسی عارضی تعیناتیاں کرنے سے “جامعات میں علمی آزادی” متاثر ہوتی ہے یا نہیں؟
یہی سوال ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے رٹ پٹیشن میں اٹھایا ہے جس کی کئی سماعتیں ہوچکی ہیں اور اگلی سماعت منگل، 18 جنوری، کو ہونی ہے اور ہمیں امید ہے کہ عدالت ان تعیناتیوں کو خلافِ قانون قرار دے کر جامعات میں علمی آزادی یقینی بنانے کےلیے ان عہدوں پر قانون کے مطابق مستقل تعیناتیوں کا حکم جاری کرے گی، ان شاء اللہ۔اس سیاق میں سپریم کورٹ کی طرف اس وقت اس فیصلے کا آنا ہمارے لیے، اور جامعات میں علمی آزادی کی جدوجہد کرنے والے سب لوگوں کےلیے، ایک نیک شگون ہے۔ وللہ الحمد!
نوٹ: سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:
https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/c.p._3429_2021.pdf