کل رات ایک دوست کی پوسٹ دیکھی جس میں شدّ و مدّ سے سپریم کورٹ کے حکم نامے کی تائید کی گئی تھی اور مسجد گرانے کے حکم کی تعمیل کو امیر کی اطاعت قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک عام بات یہ چل رہی ہے کہ زمین غصب کرکے مسجد بنائی گئی ہے۔ میں نے اس پس منظر میں درج ذیل تین سوالات قائم کیے اور میرا خیال تھا کہ ہمارے دوست ان سوالات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کریں گے لیکن معلوم یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس صاحب کی طرح ہمارے یہ دوست بھی بہت جلدی میں ہیں۔ اب چیف جسٹس صاحب کی جلدی کی وجہ تو قابلِ فہم ہے کہ وہ اگلے مہینے ریٹائر ہورہے ہیں لیکن ان دوست کی جلدی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آسکی۔
یہ بھی دیکھئے:
پہلے میرے تین سوالات ملاحظہ کیجیے:
1۔ حقیقی فرد (انسان) کی ملکیت اور فرضی شخص (ریاست) کی ملکیت کو یکساں کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
2۔ اگر کسی حقیقی فرد کی ملکیت پر کسی اور نے مالکانہ تصرف کیا اور عشروں تک وہ خاموش رہا، تو کیا بعد میں وہ عدالت میں دعوی دائر کرسکتا ہے؟
3۔ کیا ریاست نے دعوی کیا بھی ہے؟
پہلا سوال اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ معلوم ہوسکے کہ کیا واقعی مذکورہ زمین کو غصب شدہ زمین کہا جاسکتا ہے؟ کیا یہ زمین کسی حقیقی فرد/افراد کی ملکیت تھی یا ریاست کی ملکیت تھی؟ اتنا تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ پہلا امکان نہیں ہے، اس لیے دوسرے امکان پر غور کریں۔ اگر آپ اسے ریاست کی ملکیت قرار دیتے ہیں، تو آگے بڑھنے سے قبل اس پر سوچیے کہ ریاست کیا ہے؟ ایک فرضی شخص؟ کیا اسلامی قانون کی رو سے فرضی شخص کا تصور قابلِ قبول ہے بھی یا ویسے ہی آپ نے فرض کرلیا ہے کہ چونکہ یہ تصور رائج ہے تو بس جائز ہے؟ کیا اسلامی قانون کی رو سے ایسی زمین جو کسی حقیقی فرد کی ملکیت میں نہ ہو، ریاست نام کے فرضی شخص کی ملکیت میں شامل سمجھی جاتی ہے، یا اسے مباحات میں شمار کیا جاتا ہے، اور کیا مباح مال پر قبضے کو غصب کہا جاتا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
وہ دو تباہیاں جو اس منی بجٹ سے فوری طور پر آئیں گی
الہان عمر کا وہ کارنامہ جو پوری مسلم دنیا پر بھاری ہے
آج خوش گو شاعر عزم بہزاد کا یوم پیدائش ہے
چلیں، ان مشکل سوالات سے جان چھڑانے کےلیے فرض کرلیتے ہیں کہ اسلامی قانون کی رو سے فرضی شخص کا تصور قابلِ قبول ہے۔ لیکن یہیں سے تو وہ سوال اٹھا جو اوپر پہلے سوال کے طور پر ذکر ہوا ہے: حقیقی فرد (انسان) کی ملکیت اور فرضی شخص (ریاست) کی ملکیت کو یکساں کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ سوال بھی مشکل ہے تو چلیں اس سے بھی جان چھڑانے کےلیے فرض کرلیتے ہیں کہ دونوں کی ملکیت یکساں ہے اور مان لیتے ہیں کہ جس نے ریاست نامی فرضی شخص کی ملکیت پر اس کی اجازت کے بغیر قبضہ کیا، اس نے غلط کیا۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مالِ غیر منقول کو “غصب” کیا جاسکتا ہے؟ لیکن اس مشکل سوال کو بھی پیپر سے نکال لیتے ہیں کیونکہ پھر سٹوڈنٹس احتجاج کریں گے۔ چنانچہ ہم اس پہلے سوال کے جواب میں فرض کرلیتے ہیں کہ ریاست کی زمین غصب کرلی گئی ہے اور ریاست کو حق ہے کہ غاصب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
اب یہاں سے وہ دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے جو اوپر ذکر کیا گیا: جب آپ حقیقی فرد اور فرضی شخص کی ملکیت کو یکساں مانتے ہیں، تو اگر کسی حقیقی فرد کی ملکیت پر کسی اور نے مالکانہ تصرف کیا اور مالک عشروں تک خاموش رہا، تو کیا بعد میں وہ عدالت میں دعوی دائر کرسکتا ہے؟واضح رہے کہ یہاں بات اس کی نہیں ہورہی کہ کیا مالک کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیت میں تصرف کرنے والا اس مال کا مالک بن جاتا ہے، بلکہ اس کی ہورہی ہے کہ کیا مالک کے پاس عدالتی چارہ جوئی کا حق ہے؟ گویا یہاں اصل میں بات قانونِ تحدید میعادِ سماعت (Limitation Act) کی ہورہی ہے۔ اب اگر آپ حقیقی فرد اور فرضی شخص کی ملکیت کو یکساں مانتے ہیں، تو اس سوال کا جواب واضح طور پر نفی میں ہے لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ریاست کے پاس چارہ جوئی کا حق ہے، تو آپ فرضی شخص کی ملکیت کو حقیقی فرد کی ملکیت سے زیادہ اہم اور زیادہ مقدس مانتے ہیں۔ گویا پہلے آپ نے ایک فرضی شخص گھڑا، پھر اس فرضی شخص کےلیے ملکیت فرض کی، پھر اس ملکیت کو حقیقی شخص کی ملکیت پر فوقیت بھی دے دی! چلیں، آپ کے ساتھ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ریاست نامی فرضی شخص کی ملکیت کو حقیقی فرد کی ملکیت پر فوقیت حاصل ہے اور اس وجہ سے قانونِ تحدیدِ سماعت کا اطلاق ریاستی املاک پر نہیں ہوتا اور یہ کہ ریاست جب چاہے دعوی دائر کرسکتی ہے، خواہ اس دوران میں وہ 35 سال تک خاموش رہی ہو۔
لیکن یہیں سے تو اوپر ذکر کردہ تیسرا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے: کیا ریاست نے دعوی کیا بھی ہے؟ اس کے جواب میں ہمارے دوست فرماتےہیں کہ فلاں فلاں نے عدالت میں یہ یہ رپورٹ جمع کرائی۔ بھئی، سوال یہ نہیں ہے کہ کس نے کیا رپورٹ جمع کرائی اور اس رپورٹ کی کیا حیثیت ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا دعوی ریاست نے کیا ہے کہ اس کی ملکیت پر کسی اور نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے؟ اگر آپ موجودہ کیس کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ مقدمہ اصل میں سپریم کورٹ میں ایک فرد کی جانب سے درخواست سے شروع ہوا (نعمت اللہ بنام وفاق پاکستان، دستوری درخواست نمبر 9 آف 2010)، جس میں وقتا فوقتا مختلف اور درخواستیں شامل ہوتی گئیں اور انھی میں ایک درخواست (سول متفرق درخواست نمبر 714-کے آف 2020) بھی ہے جس میں کڈنی ہل پارک کے متعلق مسائل اٹھائے گئے ہیں۔ یہ درخواست ریاست کی جانب سے نہیں ہے، جسے آپ اس زمین کی مالک قرار دے رہے ہیں۔ ریاست کو عدالت نے نوٹس جاری کیے ہیں جس کے بعد وقتا فوقتا سرکاری افسران کی سرزنش کی گئی اور پھر وہ رپورٹس لے آئے۔ تو جنابِ والا، ریاست اس میں مدعی نہیں ہے۔
ہاں، یہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دعوی ریاست کی جانب سے دائر نہیں کیا گیا تھا لیکن اب تو سرکاری موقف یہی بیان کیا گیا ہے کہ یہ سارا کچھ غیر قانونی ہے۔ اگر گھوم پھر کر بالآخر آپ اصل مسئلے تک پہنچ ہی گئے ہیں، تو یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں صرف سرکاری رپورٹس پر انحصار کرنا کافی تھا یا دوسرے لوگوں کو بھی سننا چاہیے تھا، بالخصوص ان کو جن کے متعلق آپ کا الزام ہے کہ انھوں نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے؟ یاد رکھیے کہ سپریم کورٹ آخری عدالت ہے اور اس وجہ سے کوئی بھی مقدمہ نمٹانے سے قبل اس پر لازم ہے کہ وہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے، بالخصوص جبکہ مقدمہ شروع ہی اس آخری عدالت میں ہو! یعنی اگر اپیل در اپیل کے بعد معاملہ سپریم کورٹ تک آئے، تب بھی سپریم کورٹ کو فیصلہ سنانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، لیکن یہ احتیاط خصوصا وہاں بہت ضروری ہوجاتی ہے جب مقدمہ براہِ راست سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا ہو۔ اس لیے یہ امر حیران کن ہی نہیں افسوسناک بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے اتنے اہم مسئلے کو صرف دو پیر گرافس میں نمٹانا کیوں کافی سمجھا؟
سوالات تو اور بھی ہیں، جیسے کسی مسجد کا شارعِ عام میں رکاوٹ بننے کی صورت وہاں سے ہٹا دینا اور کسی مسجد کو ہٹا کر اس کی جگہ پارک بنادینا، کیا ایک ہی نوعیت کے کام ہیں؟ لیکن ان پر بحث اگلے مرحلے میں ہوگی، ان شاء اللہ۔
پس چہ باید کرد؟
شور شرابا بہت ہوا۔ اب فوری طور پر اس حکم نامے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست دائر ہونی چاہیے اور درخواست کی تیاری اور پھر پیروی ملک کے بہترین وکیلوں کے ذریعے ہونی چاہیے۔