توہینِ رسالت ایک جنگی اقدام ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے دو صورتوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلی صورت یہ ہے کہ توہینِ رسالت اگر کوئی ایک فرد یا چند افراد کریں تو یہ ایک جرم ہے جس پر فوجداری قانون (criminal law) کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ کیا ملزم یا مجرم ہمارے دائرۂ اختیار میں، یعنی ہمارے ملکی حدود کے دائے میں آتا ہے یا نہیں آتا ہے؟ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کیا ملزم یا مجرم اس جرم سے قبل مسلمان بھی تھا یا نہیں تھا؟ ان سوالات کے علاوہ مزید بھی کئی سوالات اس پہلو سے اٹھائے جاتے ہیں جن کی مدد سے جرم کی نوعیت کے تعین میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وسم کا جرم اگر ایک مضبوط جتھا کرے، جسے عسکری قوت بھی حاصل ہو، تو اس صورت میں یہ واقعہ محض جرم نہیں بلکہ جنگی اقدام (act of war) ہے اور اس پر قانونِ جنگ (law of war) کا اطلاق ہوتا ہے۔
یہی دوسری صورت اس وقت بھی ہوتی ہے جب یہ فعل قبیح کوئی ایک فرد یا چند افراد مل کر کریں لیکن انھیں بھرپور حکومتی تائید یا حفاظت حاصل ہو۔
فرانس کے صدر ایما نویل میک خواں کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت دراصل مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام ہے۔
اس لیے جنگ سے متنفر تمام “امن پسند” لبرلز پر لازم ہے کہ اس جنگ کو روکنے میں بھرپور حصہ ڈالیں اور فرانس کو اس جنگی اقدام سے روکیں۔ اس دوران میں مسلمان حکومتوں پر لازم ہے کہ جنگ کی بھرپور تیاری کریں۔ گر یہ نہیں تو ، بابا ، پھر سب کہانیاں ہیں!
اللھم صل علی سیدِنا محمد و علی آلِ سیدِنا محمد و بارِک و سلِم۔