‘ اکبر بنام اقبال ‘ پیش نظر ہے۔علاّمہ اقبال کا یہ دستور بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نام وصول ہونے والے خطوط کا جلد از جلد جواب لکھنے کے بعد خطوط کو تلف کر دیتے تھے۔ ظاہر ہے بڑی بڑی شخصیات کے خط اُنہیں موصول ہوتے تھے مگر انہوں نے کسی کے مکاتیب کا ریکارڈ نہیں رکھا۔ اِس دستور میں صرف ایک استثنا تھا اور وہ تھا اکبر الٰہ آبادی کے خطوط کا جنہیں وہ نہ صرف سنبھال کر رکھتے تھے بلکہ بعد میں بھی گاہے گاہے تنہائی میں پڑھتے رہتے تھے۔ مولانا رومؒ کے علاوہ شاید اکبر ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کو اقبال نے ’’پیر و مُرشد‘‘ کا درجہ دیا۔
اکبر الٰہ آبادی کے خطوط کا ایک بڑا ذخیرہ علّامہ کے پاس محفوظ رہا اور بعض شواہد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ان خطوط کو مرتّب کر کے شائع کرنا چاہتے تھے۔ غالباً علاّمہ کی اِسی خواہش کے پیشِ نظر اُن کے مقرّب دوست اور دستِ راست چودھری محمدُحسین صاحب نے اکبر کے بہت سے خطوط کی اپنے ہاتھ سے نقول بھی تیار کیں۔ کیونکہ اُس زمانے میں فوٹو سٹیٹ جیسی سہولت تو تھی نہیں اور اصل خطوط کاتب کے حوالے نہیں کیے جا سکتے تھے۔
علاّمہ کی وفات کے بعد اُن کے نام اکبر کے اِکّا دُکّا خطوط ضرور شائع ہوئے لیکن محقّقین یہ سُراغ لگانے سے قاصر رہے کہ اکبر کے خطوط کا وہ سارا ذخیرہ، جو اقبال نے محفوظ کر رکھا تھا، کہاں گیا؟ مجھے ذاتی طور پر ہمیشہ یہ گمان رہا کہ یہ خطوط چودھری محمّد حسین صاحب کی تحویل میں رہے ہوں گے اور ان کے خانوادے میں ضرور محفوظ ہوں گے۔ اس گمان میں صرف ایک چیز َتردّد پیدا کرتی تھی۔ وہ یہ کہ چودھری صاحب، علاّمہ کی وفات کے بارہ برس بعد تک زندہ رہے۔ اگر یہ خطوط اُن کے پاس تھے تو اُنہوں نے اقبال کی خواہش کی تکمیل کے لیے اِن کی اشاعت کا اہتمام کیوں نہیں فرمایا۔ تاہم قیاسِ غالب یہی رہا کہ ممکن ہے احوال و ظروف میں کچھ ایسے عوائق رہے ہوں کہ چودھری صاحب جو اس کام کے لیے موزوں ترین شخصیت تھے اس کی انجام دہی کی فرصت نہ پا سکے اور یہ سرمایہ اُنہی کے گھرانے میں موجود ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
تفصیلی فیصلہ: ہیجان خیز معجون مرکب
بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے وفاقی محتسب کیا قدم اٹھایا؟
رحمۃللعالمین اتھارٹی نے انتہا پسندی کا علاج کیا سوچا؟
شرائط تو مشکل تھیں لیکن پھر رشتوں پر رشتے آتے چلے گئے، کیوں؟
چودھری صاحب کے بعد اُن کے صاحبزادے نفیس احمد باجوہ صاحب نے والد کی چھوڑی ہوئی تمام دستاویزات کو محفوظ رکھا۔ باجوہ صاحب کے فرزند ڈاکٹر ثاقف نفیس صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے رفیق کار رہے ہیں۔ میں نے کئی بار اُن سے دریافت کیا کہ اِن دستاویزات میں کیا ُکچھ ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُن کے والدِ محترم نے انہیں کسی مقفل صندوق میں محفوظ کیا ہوا ہے جسے وہ بجان برابر سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں تک کو اس تک رسائی نہیںدیتے۔ چنانچہ اُنہیں خود معلوم نہیں کہ اس ذخیرے میں کیا کیا ہے۔ اب سے چھ برس قبل ۲۰۱۹ء کے آغاز میں نفیس احمد باجوہ صاحب کا انتقال ہو گیا اور یہ خزینہ ادب شناسوں کی نگاہ سے اوجھل ہی رہا۔ تاہم ثاقف نفیس صاحب سے یہ تصدیق ہو گئی کہ اکبر کے خطوط اِس میں موجود ہیں۔
حال ہی میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے مدوّن کردہ یہ خطوط بعنوان ’’ اکبر بنام اقبال‘‘ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ ڈاکٹر زاہد منیر ایک کثیر التصنیف مصنف ہیں۔ مگر میرے خیال میں اُن کی سب سے بڑی ادبی خدمت یہی کتاب ہے۔ اِن خطوط کو پڑھنا کچھ آسان نہ تھا۔ کبھی کبھار واٹس ایپ پر زاہد منیر صاحب کی طرف سے کسی تحریر کی چند ُگنجلک سطور کا عکس وصول ہوتا تھا جس کی خواندگی میں مجھ سے مشورہ مطلوب ہوتا۔ کافی دماغ لڑانے کے بعد، کبھی میں اس امتحان میں کامیاب ہو جاتا اور کبھی عاجز رہتا۔ خطِ شکستہ میں پُرانے بزرگوں کی تحریریں پڑھنے میں کیا کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں کسی مشکل مخطوطے کی تدوینِ متن کا تجربہ ہو۔ بسا اوقات کئی کئی روز کسی ایک لفظ پر اٹکے رہنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر شرحِ صدر ہوتا ہے یا پھر بھی نہیں ہوتا۔ سوادِ خط کی مشکلات کے علاوہ اِن خطوط کے مندرجات بھی ہر کہ و مہ کے بس کے نہ تھے۔ جابجا آیاتِ قرآنی، روایاتِ حدیث اساتذہ کے اردو، فارسی اشعار، مذہبی، روحانی اور فلسفیانہ مباحث وغیرہ وغیرہ، رواں عبارت میں برجستہ آ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ان سب مراحل کو کمال محنت سے طے کیا ہے۔ اُن کی زندگی بھر کی تصنیفی اور تدوینی مساعی کا نچوڑ یہاں اُن کے کام آیا ہے۔ انہوں نے خود کو صرف خطوط کے متن تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے پس منظر کا سُراغ لگانے کی بھی کوشش کی ہے اور اُس کا لُبِّ لبّاب، مع حوالہ، اپنے بھرپور حواشی میں شامل کیا ہے۔ حافظ، عُرفی، شیخ علی حزیں اور دیگر فارسی اساتذہ کا کوئی مصرع یا شعر اگر کسی خط میں نقل ہوا ہے تو زاہد صاحب نے اصل دواوین کی طرف رجوع کر کے اُن کا حوالہ دیا ہے یا اگر دیوان میں اُس کی اصل صورت کچھ مختلف ہے تو اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ خود اکبر کے اشعار یا مصرعوں کا حوالہ اُن کی کلّیات سے تلاش کر کے درج کیا ہے یا اگر ان میں کوئی تفاوت ہو گیا ہے تو اس کی نشان دہی کی ہے۔ اگر خط میں کوئی غیر معروف نام آ گیا ہے تو پوری کوشش کی گئی ہے کہ اُس شخصیت کے کوائف کا سُراغ لگا کر ضروری معلومات حواشی میں شامل کی جائیں۔
حواشی کے علاوہ ایک نہایت مفید اشاریہ بھی مرتّب کیا گیا ہے جس میں آیات، احادیث، آثار، اشخاص، ادارے، اماکن، کتب و جرائد اور مصاریع و منظومات، جن کا ذکر خطوط میں آیا ہے، الفبائی ترتیب کے ساتھ، بقیدِ صفحہ مندرج ہیں۔ اہلِ علم و تحقیق جانتے ہیں کہ اس قسم کا اشاریہ بنانے میں کس قدر محنت کرنی پڑتی ہے۔ کتاب میں تحقیقی کاوش و جستجو کے پھیلائو کا اندازہ ’’کتابیات‘‘ سے بھی کیا جا سکتا ہے جس کے اندراجات ایک سو ستّر کے لگ بھگ ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ زاہد منیر صاحب نے اکبر کے وہ دستیاب خطوط بھی اِس کتاب میں شامل کر لیے ہیں جو ثاقف نفیس صاحب کے فراہم کردہ ذخیرے میں موجود نہیں تھے۔ اب ان مکاتیب میں بظاہر کسی اضافے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس اعتبار سے ’’اکبر بنام اقبال‘‘ اپنے موضوع پر ایک کامل دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ الغرض ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے تدوینِ متن میں اُس تکمیل پسندی کا ثبوت دیا ہے جس کے لیے:
فقط چراغ نہیں، دل جلانا پڑتا ہے
معیاری تحقیق پہاڑ میں سُرنگ بنانے جیسا کام ہے جس میں بڑی کوہکنی اور خارا شکنی درکار ہوتی ہے مگر محقق کا اعزاز یہی ہے کہ جس قدر وقت اور محنت وہ خود صرف کرتا ہے اُتنی ہی دوسروں کی زندگی سے بچا لیتا ہے۔ یہ تحقیق اِس معیار پر پوری اُترتی ہے۔ اس نوع کی تحقیق میں لغزش کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے۔ وہ زیرِ نظر کتاب میں بھی ضرور ہوگا مگر بس اُسی قدر جتنا متنبی نے کہا ہے:
کَفَی المَرْئَ فَضْلاً أَنْ تُعَدَّ مَعَایِبُہ
’’آدمی کے لیے یہی فضیلت بہت ہے کہ اُس کی خامیاں شمار میں آسکیں‘‘
یہ کتاب اقبالیات اور اکبرّیات کے حوالے سے اردو ادب کی ایک اہم خدمت ہے۔ ہمیں ڈاکٹر ثاقف نفیس صاحب کاممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے، چھیاسی برس کے غیاب کے بعد، اس امانت کو ایک ایسے شخص کے سپرد کیا جو اِسے اُٹھانے کا اہل تھا، اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر کو تہنیت پیش کرنی چاہیے کہ اللہ نے اُن سے ایک بڑا کام لے لیا:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
پنجاب یونیورسٹی لاہور کا ادارۂ تالیف و ترجمہ، جو اس کتاب کا ناشر ہے، بھی مبارک باد کا مستحق ہے کہ یہ کتاب یقینا اُن کی بہترین منشورات میں سے ایک ہے۔