ظریفانہ شاعری ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا خصوصی میدان ہے جس میں انھوں نے ایسے جھنڈے گاڑے ہیں کہ آج ان کا شمار اساتذہ میں کیا جاتا ہے۔ ان کے بے شمار ظریفانہ اشعار اور مصرعے زبان زد عام ہیں۔ ڈاکٹر صاحب زندگی کے عام معمولات سے مضامین تلاش کرکے کوئی ایسا پہلو نکالتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والا اش اش کر اٹھتا ہے، جیسے یہ قطعہ ؎
ہارٹ پیشنٹ نے ڈاکٹر سے کہا
میں نہ آتا تمہارے پاس کبھی
کیا کروں پر کہ بیٹھے بیٹھے ہی
”دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی”
غزل اور غزل کی معاملہ بندی میں ان کا ہنر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن ان کی زیر نظر غزل ایک نئے اور اچھوتے اسلوب میں سامنے آئی ہے۔ ہمارے شعرا کے شعرا کے طرز اظہار میں درد اور اس کے اظہار کی ایک نئی کیفیت محسوس کی جارہی ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ ایسا جانے میں ہو رہا ہے یا ان جانے میں لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ جب کسی معاشرے میں کچھ نئے حقائق ظہور میں آتے ہیں تو سماج کے حساس اور زیرک طبقے کی حیثیت سے فن کار اور خاص طور پر شعرا ہی اسے سب سے پہلے محسوس کرتے ہوئے انھیں اپنی فکر میں جگہ دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ غزل اسی نئے اسلوب کی ترجمان اور نمائندہ کی حیثیت رکھتی ہے، پڑھئے اور حظ اٹھائیے۔
٭٭٭٭٭
اِک بے وفا کے خُفیہ پیغام پر ہوا ہے
اور فیصلہ بھی خالی الزام پر ہوا ہے
جو ہوا ہے میکدے میں ساقی سے آج جھگڑا
جو پیا نہیں تھا میں نے اُسی جام پر ہُوا ہے
خلقِ خدا کی خاطر جو کیا تھا میں نے کھُل کر
مِرے ساتھ یہ تماشا اُسی کام پر ہُوا ہے
میں سزا بھگت رہا ہُوں کسی ایسے جُرم میں اب
جو کیا نہیں ہے میں نے، مِرے نام پر ہُوا ہے
خمیازہ اس کا بھگتیں گے اہل دل بچارے
آغاز جس کا میرے انجام پر ہُوا ہے
کوئی اور ہی ہدف ہے کوئی اور ہی نشانہ
کہنے کو بس یہ حملہ انعامؔ پر ہوا ہے