انقلاب کے اپنا تن من دھن لٹا دینے والے انقلابی کی یاد میں جس نے صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر زندگی بسر کر دی، ایک روایت کے خاتمے کا نوحہ۔ اسلامی انقلاب کا خواب دیکھنے والے ایک مخلص کا تذکرہ
ایشیا کو سرخ اور سبز کرنے والے بہت سے انقلابی وہ ہیں جو عام انسانوں کے طور پر جیے اور متحرک رہے۔ ان کی تاریخ بس سینہ بسینہ یادداشتوں تک محدود رہتی اور بالآخر محو ہو جاتی ہے۔ ایک ایسے ہی بے نام اور گمنام انقلابی جو میرے والد مرحوم کے قریبی دوست بھی تھے،۔ ان کے بارے میں اپنے تاثرات لکھنا چاہتا ہوں۔ آج میں ان نظریات سے نہ صرف یہ کہ علمی اور شعوری طور پر متفق نہیں ہوں بلکہ ان کو ہمارے کئی قومی اور سماجی مسایل کی جڑ بھی سمجھتا ہوں۔ لیکن ان انقلابیوں کا اخلاص انمول اور ان کی جہد مسلسل قابل رشک ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
جمہوریت اور جمہوری ملوکیت کا حسن
پندرہ جنوری : آج نامور شاعر جناب محسن نقوی کی برسی ہے
اسلام آباد، تجاوزات کا راجہ بازار
آج سہ پہر علی حیدر صاحب مرحوم کی قبر پر حاضری دی۔ پرسوں ان کا انتقال اور تدفین ہوئی۔ تھوڑی دیر میں یادوں کا خیالوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری وساری ہوا۔ یادوں کے دریچے یکے بعد دیگرے کھلتے گئے۔ اس کے بعد میں نے علی حیدر مرحوم کو جن کو ہم سب علی حیدر صیب کے نام سے جانتے تھے، اپنے سامنے کھڑا دیکھا۔
وہ جماعت اسلامی مردان کاٹلنگ سرکل کے ناظم تھے۔ علی حیدر صیب، ان کی سہراب سائیکل اور جماعت اسلامی کے نشرواشاعت کے سرکلرز، پوسٹرز، کتابچے، ابلاغی لٹریچر اور دعوت نامے گویا لازم ملزوم تھے۔ وہ مردان شہر میں جماعت کے دفتر سے نشرواشاعت کی چیزیں اٹھاتے۔ پھر سائیکل پر سوار ہو کر کاٹلنگ سرکل کی جانب روانہ ہوتے۔ یہ راستہ کم وبیش بیس کلومیٹر پر محیط تھا۔ اس کے بعد کاٹلنگ سے قرب و جوار کے دیہات کی طرف گامزن ہوتے۔ ان کے رہائشی گاؤں تک واپسی کا مجموعی فاصلہ کم وبیش پچاس کلومیٹر بنتا۔ یہ سفر علی حیدر مرحوم ہفتے میں تین یا چار مرتبہ طے کرتے۔ ہم بچے تھے سکول میں پڑھتے تھے۔ کبھی جون اور جولائی کی تپتی دھوپ ہوتی تو کبھی دسمبر کی ٹھٹھرتی سردی، جب علی حیدر صاحب ہمارے حجرے پر پہنچتے تو ہم دوڑتے ہوئے ان کا استقبال کرتے۔ ہمارے والد صاحب مرحوم ہمیں فوراً ان کے جوتے اتارنے کا کہتے اور ہم ان کے پاؤں دبانے میں لگ جاتے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ پہلے پانی مانگتے، پھر نماز پڑھنے کا اشارہ دیتے۔ اس کے بعد ان کا کھانا لگتا تھا۔ عاجز، سادہ، مخلص، جفاکش، عالم، فاضل، نمازی، درویش، انقلابی، متحرک اور باعمل۔ یہ ان کی پوری شخصیت کا احاطہ ہے۔ نہ جاہ وجلال کی تمنا، نہ ذاتی کاروبار کی لالچ، نہ عہدے کی فرمائش، نہ دنیاداری کی ہوس، نہ بیٹوں کی نوکری کا غم، نہ بیوی کے زیورات کے منصوبے۔ نہ کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ کی پلاننگ، نہ گاڑی کے قسطوں کی جھنجھٹ۔ نہ اس ابلیسی دور کے جال کی اسیری۔ وہ ہر لحاظ سے آزاد منش تھے۔ حقیقی معنوں میں آزاد تھے۔ اقامت دین اور اسلامی انقلاب کا جو فلسفہ ان کو سمجھ آیا تھا اور اس کا جو طریقہ کار ان کے دل و دماغ میں گھر کر گیا تھا، تادم مرگ اسی کے ساتھ جڑے رہے، گویا انلقاب کی جدو جہد میں مصروف رہے۔
اس تعارف اور اس متحرک زندگی سے قرب و جوار کے دیہات میں سب لوگ ان کو ایک انتہائی نیک اور باعمل مسلمان کی حیثیت سے جانتے تھے۔ آج میں خود کو سیاسی اسلام اور اقامت دین کےفلسفے اور منہج سے منسلک نظریات سے بالکل متفق نہیں پاتا۔ نہ ہی اس کو شعوری طور پر صحیح سمجھتا ہوں لیکن میرے اس ذہنی ارتقاء سے علی حیدر صاحب مرحوم کی کاوشوں اور ان کے اخلاص کی ناقدری مقصود نہیں ہے۔ وہ ایک بے مثل شخصیت تھے اور جس انقلاب یا تصور دین کو وہ صحیح سمجھتے تھے اس کے لیے پرامن طریقے سے متحرک تھے۔ مجھے یہ یقین کامل ہے کہ ان کا تیقن، عمل صالح اور جہد مسلسل ان کی آخرت میں درجات کی بلندی کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ امین۔