میں نے جوں ہی بخشالی مردان روڈ سے سوات ایکسپریس وے کی طرف ٹرن لیا میری دھندلاتی دیہی تہذیب سے ملاقات ہو گئی۔ ان باباجی نے رکنے کا اشارہ کیا۔ اکیلا تھا چناں چہ ان کو اپنے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کا کہا۔ بابا جی نے کرنل شیر انٹرچینج تک جانے کی خبر دی۔ میں نے ان کی پیشانی پر پڑے بل، سفید داڑھی اور چہرے پر نمایاں جھریوں کا جائزہ لیا اور جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو ان کی آواز کے خوبصورت لینڈسکیپ نے میری یادوں کے سینکڑوں دریچے وا کردیے۔ وہ اس لب و لہجے میں بات کررہے تھے جس میں میرے پرانے روایتی گاؤں کے سادہ لوح اور جفاکش کاشت کار بات کرتے تھے۔ میرے اپنے مرحوم دادا بات کرتے تھے۔ کھیت کھلیانوں اور پگڈنڈیوں کے اتار چڑھاؤ کا پورا لینڈسکیپ ان کے چہرے کے خدوخال اور آواز کے مدوجذر میں موجزن تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
مولانا محمد یوسف اصلاحی: آداب زندگی سکھانے والا رخصت ہوا
وقت بے وقت رابطے میں نہ آنے والے
مرید اقبال علامہ غلام فرید نقشبندی کی یاد میں واہ کینٹ میں خصوصی تقریب
ساقی محمد باباجی جدی پشتی زمین کا سینہ چاک کر فصل اگانے والے کاشت کار تھے جو اب بڑھتی ابادی اور گھٹتی زرعی زمین کے باعث اجرت پر مالٹوں کے ایک باغ کی نگرانی پر مامور تھے۔
کرنل شیر انٹرچینج کے قریب مالٹوں کے ایک بڑے باغ میں کئی اور باغبانوں سمیت پھل دار پودوں کی دیکھ بھال اور نگہبانی پر مامور تھے۔ کتنے بڑے ماحول دوست اور اینوائرومنٹلسٹ تھے باباجی!! اس دور میں جب صنعت کار، آبادکار، جرنیل اور دہشت گرد سب اپنے اپنے محرکات کی خاطر درخت اجاڑ رہے ہیں۔ جلا رہے ہیں۔ کاٹ رہے ہیں۔ ساقی محمد بابا باغبان ہیں۔ یعنی درختوں کے پالنے والے۔ وہ بھی پھل دار اور ثمراور درختوں کے۔ ان کے دم سے ہم ابھی تک سانس لے سکتے ہیں۔
ساقی محمد بابا کی ماہانہ اجرت صرف سولہ ہزار روپے ہے۔ لیکن ان کے لبوں پر جاری شکر کے کلمات انمول ہیں۔ آپ کو پڑھ کر حیرت ہوگی کہ ان کے شکر کی اصل وجہ 16 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ نہیں۔ بلکہ مٹی اور گھارے سے بنی کچی چھت والی وہ مسجد ہے جس میں وہ اور دیگر باغبان باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔ ان کے شکر کی اصل وجہ یہ تھی کہ اب ان کی کوئی باجماعت نماز قضا نہیں ہوتی۔
دھندلاتی تہذیب کی آخری نشانی
وہ مسلسل بولتے رہے اور میں چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور خاموش نہ ہوں۔ میں نمدیدہ آنکھوں کے ساتھ ان کو سنتا اور ہر تھوڑی دیر بعد ان کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھتا۔ باباجی کی گفتگو کے دوران میرے بچپن اور لڑکپن میں میرے گاؤں میں موجود ایک ایک کاشت کار کی تصویر دماغ کے سکرین پر گزرنے لگی: نوراکبر کاکا، فیروز شاہ کاکا، منفرق کاکا، میردئی بابا، جانان بابا اور میرے اپنے دادا جان۔
یہ سب،دبلے پھرتیلے جسم، سفیدریش چہرے، سحرخیز، مویشیوں کے محفاظ، صاف دل و صاف گو، کھرے اور سادہ لوح۔ آنکھوں میں ہر وقت نہ ٹپکنے والے آنسوؤں کی ہلکی سی نمی۔ چہرے پر پختگی اور غربت کے دبیز اور ان مٹ نقوش اور لبوں پر جاری ٹپے اور چار بیتے۔ یہی ان کی متاع کل تھی۔ یہی ان کا زاد راہ تھا۔ اورر یہی ان کی دنیا و آخرت کی متاع گراں تھی۔ ساقی محمد بابا اس دھندلاتی کاشتکار/ دیہی تہذیب کے آخری ٹمٹماتے ستارے ہیں۔
وہ دھندلاتی دیہی تہذیب کے آخری ٹمٹماتے ستارے تھے، وہ بولتے رہے، میں سنتا رہا۔ چہرے پر پختگی، غربت کے ان مٹ نقوش، یہی ان کی متاع تھی، یہی زاد راہ۔