رثائی ادب کی جب بھی کوئی مستند تاریخ مرتب کی جائے گی اور فنی رموز بھی زیر بحث آئیں گے تو سوز خوانی کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکے گا۔ مرزا دبیر کے استاد میر ضمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے موازنہ انیس و دبیر میں شبلی نے لکھا ہے کہ اب سے پہلے مرثیے سوز کے لہجے میں پڑھے جاتے تھے۔ اس رائے کے پیش نظر سوز خوانی کی اولیت سے انکار ممکن نہیں۔اسی لیے بعض اہل فن نے اسے مجلس عزا کی تکبیرۃ الاحرام بھی قرار دیا ہے۔
وہ اصناف ادب و فن جن کا تعلق کسی نہ کسی زاویے سے مذہب کے دائرے میں آجاتا ہے،ان پر ہمارے نقادوں اور اہل تحقیق نے توجہ نہیں کی۔ اس کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں فن سوز خانی جس بے دردی سے نظر انداز ہوا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ سوز خوانوں کے کام پر مشتمل کچھ کام تو ہوا ہے اور پھر چند متفرق مضامین بھی ہیں اور بس، باقی ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو جائیے۔ ایسی مایوس کن صورت حال میں جناب عقیل عباس جعفری میں بیڑا اٹھایا اور صنف عزا کی تاریخ مرتب کردی۔
سوال یہ ہے کہ جو ادارے اور مراکز تحقیق کا منبع ہوتے ہیں وہاں اس حوالے سے علمی اور تحقیقی کاموں کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ اگر میں کسی تکلف اور اور احتیاط کو ایک طرف رکھ کر بات کروں تو دیانت دارانہ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے تعصبات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ادب وہ واحد تہذیبی رویہ ہے جو ہمیشہ انسانیت کی ترویج اور فروغ میں آگے آگے رہا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ادبی حلقوں نے بھی انسان کو تقسیم کردیاہے۔ کربلا، صداقت، شہادت اور انکار بیعت کی سرخیوں سے عبارت ہے۔ مرثیہ ، سلام اور سوز اسی کربلا کے لیے خراج کی ایک دنیا لے کر آیا ۔ شعرا نے اس میں فنی کمالات پرو دئیے جو حزنیہ مضامین میں ایک نیا جادو جگانے لگے ۔ مجلس کا آغاز سوز سے ہوا اور جب ماہرین فن اور مستند اساتذہ نے اس میں اپنی آواز کا درد سمویا تو اس نے دلوں میں جگہ نانا شروع کردیا۔ کسی ماہر سوز خواں سے کربلا کی داستان کا درد کوئی سن کر دیکھے ، انسانی احساس میں روح دوڑنے لگے گی۔
المیہ یہ ہے کہ سوز خوانی کو سنجیدگی سے فنی تربیت کے آئینے میں دیکھا ہی نہیں گیا۔اس فن کی ہنر آزائی اسی وقت کچھ کچھ سمجھ میں آسکتی ہے جب اسے مجلس عزا میں سنا جائے۔ میں کراچی میں رہتا ہوں،عقیل عباس جعفری بھی اسی شہر میں زندگی گزار رہے ہیں۔انھوں نے بھی دیکھا ہوگا کہ جب ڈاکٹر یاور عباس کے گھر کی مجالس نو تصنیف مرثیہ میں شوکت تھانوی سے زیڈ اے بخاری تک اور نسیم امروہوی سے سید آل رضا تک انتہائی منتخب سامعین کے روبرو آغاز مجلس میں سوز خوانی کا بستہ کھلتا تھا تو کیا کیا کمالات ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ اختر وصی علی سے معشوق علی خان اور پھر عظیم المحسن سے آباد محمد نقوی اور اب جواں سال نسل میں مرحوم سبط جعفر تک، اس کی جو تاریخ بنتی گئی، وہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ 1971 میں جب میں بالکل نوجوان تھا، میں نے حسنینی انجمن ایرانیان میں جوش ملیح آبادی کو دیکھا کہ وہ عظیم المحسن صاحب کی سوز خانی کو پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ یہاں انھوں نے مرثیہ پیش کیا تھا۔ ان کی پیش خوانی کا شرف مجھے حاصل ہوا تھا۔ میں عرض یہ کررہا ہوں کہ انیس سے جوش تک ہر عہد کے بڑے بڑے شعرا نے سوز خوانی کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ سوز خوانوں نے سلام، رباعیات اور مرثیے کے انتخاب سے اپنے فن کی دنیا تعمیر کی۔سوز خانی ادب و فن دونوں کی ترویج کا نام ہے۔ پیش نظر کتاب میں عقیل عباس جعفری نے اس فن کی کئی منزلیں طے کی ہیں۔میری ان سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے جس سے اندازہ ہوا کہ وہ اس حوالے سے اپنے کاموں کو ابھی بہت آگے لے کر جانا چاہتے ہیں۔
عقیل عباس جعفری ایک خوش گو شاعر ہیں۔ ان کی تحقیقی کاوشوں کا دائرہ تاریخ و سیاست سے ادب ، فرہنگ نگاری اور حوالہ جاتی کاموں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مختصر اظہارئیے میں تفصیل کی گنجائش تو نہیں ہے میں ان کے کاموں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں خصوصاً اردو لغت بورڈ کے دور ادارت میں انھوں نے جس طریقے سے اس ادارے کے جمود کو توڑا اور اس کے تن مردہ میں روح پھونکی وہ کچھ ان ہی کا حصہ ہے۔
ان کی تازہ کتاب سوز خوانی کا فن ایک بہت سنجیدہ اور باوقار تصنیف ہے جس نے ہماری ادبی اور تہذیبی قدر میں بھی اضافہ کیا ہے۔